صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
44. بَابُ عُمْرَةُ الْقَضَاءِ:
باب: عمرہ قضاء کا بیان۔
حدیث نمبر: 4257
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" إِنَّمَا سَعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِيُرِيَ الْمُشْرِكِينَ قُوَّتَهُ".
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان بن عیینہ نے ‘ ان سے عمرو بن دینار نے ‘ ان سے عطاء ابن ابی رباح نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں رمل اور صفا و مروہ کے درمیان دوڑ ‘ مشرکین کے سامنے اپنی طاقت دکھانے کے لیے کی تھی۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 613  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان چار چکر عام معمول کے مطابق چل کر لگائیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 613]
613 لغوی تشریح:
«‏‏‏‏اَمَرهمْ» سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ 7 ہجری میں عمرۃ القضاء کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ حکم فرمایا تھا۔
«ان يرملوا» میم پر ضمہ ہے۔ دوڑتے ہوئے۔
«اشواط» «شوط» کی جمع ہے۔ جس کے معنی ہیں چکر لگانا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 613   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1886  
´طواف میں رمل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے اور لوگوں کو مدینہ کے بخار نے کمزور کر دیا تھا، تو مشرکین نے کہا: تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں بخار نے ضعیف بنا دیا ہے، اور انہیں بڑی تباہی اٹھانی پڑی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس گفتگو سے مطلع کر دیا، تو آپ نے حکم دیا کہ لوگ (طواف کعبہ کے) پہلے تین پھیروں میں رمل کریں اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلیں، تو جب مشرکین نے انہیں رمل کرتے دیکھا تو کہنے لگے: یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم لوگوں نے یہ کہا تھا کہ انہیں بخار نے کمزور کر دیا ہے، یہ لوگ تو ہم لوگوں سے زیادہ تندرست ہیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تمام پھیروں میں رمل نہ کرنے کا حکم صرف ان پر نرمی اور شفقت کی وجہ سے دیا تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1886]
1886. اردو حاشیہ: کفر وکفار کو زیر رکھنے اور ان پرمسلمانوں کارعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے لئے مختلف مناسب مواقع پراپنے شباب وقوت کا اظہار ومظاہرہ کرنا شرعا مطلوب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1886   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4257  
4257. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے بیت اللہ کا طواف اورصفا و مروہ کے درمیان سعی اس لیے کی تھی کہ مشرکین کو اپنی قوت دکھائیں۔ ابن عباس ؓ ہی سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب نبی ﷺ امن کے سال مکہ مکرمہ تشریف لائے تو فرمایا: اکڑ کر چلو تاکہ مشرکین کو اپنی طاقت دکھائیں۔ اور مشرکین جبل قعیقعان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4257]
حدیث حاشیہ:
مونڈھے ہلاتے ہوئے اکڑ کر چلنے کو رمل کہتے ہیں جواب بھی مسنون ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4257   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4257  
4257. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے بیت اللہ کا طواف اورصفا و مروہ کے درمیان سعی اس لیے کی تھی کہ مشرکین کو اپنی قوت دکھائیں۔ ابن عباس ؓ ہی سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب نبی ﷺ امن کے سال مکہ مکرمہ تشریف لائے تو فرمایا: اکڑ کر چلو تاکہ مشرکین کو اپنی طاقت دکھائیں۔ اور مشرکین جبل قعیقعان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4257]
حدیث حاشیہ:

گزشتہ حدیث سے معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران طواف میں رمل کیا تاکہ کفار کو اپنی طاقت دکھائیں اس حدیث سے پتہ چلا کہ آپ نے صفاو مروہ کی سعی کرتے وقت بھی یہی خیال کیا تھا کہ کفار کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں اگرچہ صفاو مروہ کی سعی کے اسباب بھی احادیث میں ذکر ہوئے ہیں ایک چیز کے کئی اسباب ممکن ہیں ان اسباب کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
کفار کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا مقصود تھا جیسا کہ مذکورہ حدیث میں حضرت ابن عباس ؓ نے اس سبب کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے اس مقام پر وسوسہ اندزای کرنے کے لیے آپ کے سامنے شیطان آیا تو آپ اس مقام پر دوڑے تھے اس لیے اسے ابراہیم کہا گیا ہے۔
(مسند أحمد: 297/1)
حضرت ہاجرہ ؓ کی سنت قدیم ہے وہ اس مقام پر ماں کی مامتا کے ہاتھوں مجبور کر بے قراری سے دوڑی تھیں جیسا کہ کئی احادیث سے ثابت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4257