مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المناسك -- اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل

صفا و مروہ کے درمیان رمل کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 335
اَخْبَرَنَا جَرِیْرٌ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ عَطَاءٍ وَطَاؤُوْسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اِنَّمَا رَمَلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَیْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِیَرَاهٗ الْمُشْرِکُوْنَ، لِاَنَّ الْمُشْرِکِیْنَ تَحَدَّثُوْا اَنَّ بِمُحَمَّدٍ وَبِاَصْحَابِهِ جُهْدًا، فَرَمَلَ لِیُرِیَهُمْ ذٰلِكَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کرتے وقت اور صفا و مروہ کی سعی کرتے وقت رمل فرمایا: (آپ تیز تیز چلے) تاکہ مشرک آپ کو دیکھ سکیں، کیونکہ مشرکوں نے کہا: تھا محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اور آپ کے ساتھی کمزور ہو گئے ہیں (اور انہیں مدینہ منورہ کی آب و ہوا نے کمزور کر دیا ہے) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل فرمایا، تاکہ آپ انہیں اپنی قوت دکھا سکیں۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الحج، باب ماجاء فى السعي بين الصفاء والمروة، رقم: 1649. مسلم، كتاب الحج، باب استحباب الرمل فى الطواف الخ، رقم: 1266. سنن ترمذي، رقم: 863. سنن نسائي، رقم: 2979. مسند احمد: 221/1»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 335  
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کرتے وقت اور صفا ومروہ کی سعی کرتے وقت رمل فرمایا، (آپ تیز تیز چلے) تاکہ مشرک آپ کو دیکھ سکیں، کیونکہ مشرکوں نے کہا تھا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے ساتھی کمزور ہوگئے ہیں (اور انہیں مدینہ منورہ کی آب وہوا نے کمزور کر دیا ہے) پس آپ نے رمل فرمایا، تاکہ آپ انہیں اپنی قوت دکھا سکیں۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:335]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا صفا ومروہ کے درمیان دوڑنا چاہیے۔ اگرچہ اس وقت مشرکین مکہ کو دکھلانے کے لیے تھا، اب وہ صورت تو موجود نہیں، لیکن پھر بھی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس عمل کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے نہ دوڑ سکے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ سیّدنا کثیر بن جمہان سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو صفا مروہ کے درمیان عام چال چلتے دیکھا تو کہا: آپ صفا اور مروہ کے درمیان عام چال (کیوں) چل رہے ہیں؟ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر میں دوڑوں تو (بھی درست ہے کیونکہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوڑتے دیکھا ہے اور اگر عام چال چلوں تو (بھی درست ہے کہ) میں نے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے اور میں بوڑھا آدمی ہوں (اس لیے عام چال چل رہا ہوں۔) (صحیح ابن خزیمة، رقم: 277)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 335