مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المناسك -- اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل

آبِ زمزم پینے کا بیان
حدیث نمبر: 351
اَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوْسٰی، نَا عُثْمَانُ بْنُ الْاَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ مُلَیْکَةَ، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: مِنْ اَیْنَ جِئْتَ؟ فَقَالَ: شَرِبْتُ مِنْ مَّائِ زَمْزَمَ، فَقَالَ: اَشَرِبْتَ کَمَا یَنْبَغِیْ؟ قَالَ: کَیْفَ یَنْبَغِیْ؟ قَالَ: اِذَا اَرَدْتَ اَنْ تَشْرِبَ مِنْ مَّاءِ زَمْزَمَ فَاسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ اذْکُرِ اسْمَ اللّٰهِ، ثُمَّ تَنَفَّسْ ثَـلَاثًا، ثُمَّ تَضْلَعُ مِنْهٗ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِنَّهٗ مَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْمُنَافِقِیْنَ، اِنَّہُمْ لَا یَتَضَلَّعُوْنَ مِنْ مَّاءِ زَمْزَمَ.
عبدالرحمٰن بن ابی ملیکہ نے بیان کیا: ایک آدمی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: کہاں سے آئے ہو؟ اس نے کہا: میں نے آب زم زم پیا ہے، انہوں نے فرمایا: کیا جس طرح پینا چاہیے تھا اسی طرح تم نے پیا ہے؟ اس نے کہا: کس طرح پینا چاہیے تھا؟ انہوں نے فرمایا: جب تم آب زم زم پینے کا ارادہ کرو تو قبلہ رخ ہو جاؤ، پھر بسم اللہ پڑھو، پھر تین سانس لو، پھر اس سے سیر ہو جاؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے اور منافقوں کے درمیان جو فرق ہے وہ یہ کہ وہ آب زم زم سے سیر نہیں ہوتے (بہت زیادہ نہیں پیتے)۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجه، كتاب المناسك، باب الشرب من زمزم، رقم: 3061. سنن كبريٰ بيهقي: 147/5. ضعيف الجامع الصغير: 22»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 351  
عبدالرحمن بن ابی ملیکہ نے بیان کیا: ایک آدمی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: کہاں سے آئے ہو؟ اس نے کہا: میں نے آب زم زم پیا ہے، انہوں نے فرمایا: کیا جس طرح پینا چاہیے تھا اسی طرح تم نے پیا ہے؟ اس نے کہا: کس طرح پینا چاہیے تھا؟ انہوں نے فرمایا: جب تم آب زم زم پینے کا ارادہ کرو تو قبلہ رخ ہو جاؤ، پھر بسم اللہ پڑھو، پھر تین سانس لو، پھر اس سے سیر ہو جا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے اور منافقوں کے درمیان جو فرق یہ ہے کہ وہ آب زم زم سے سیر نہیں ہوتے (بہت زیادہ نہیں پیتے)۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:351]
فوائد:
بعض محققین نے اس کو حسن کہا ہے۔ مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ منافق تھوڑا زمزم پیتا ہے۔ لہٰذا مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ذوالجلال اگر توفیق دے تو زمزم کو خوب سیر ہو کر پئیں۔ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے پورا ہوتا ہے، اگر تو اس کو بیماری سے شفا کے لیے پئے گا تو اللہ تجھے شفاء دے گا، اگر تو اس لیے پئے گا کہ وہ تیری پیاس بجھائے تو اللہ تیری پیاس بجھائے گا اور یہ جبریل کا کنواں ہے جو اللہ نے اسماعیل کو پلایا تھا۔ (سنن دارقطنی: 2؍ 289)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 351