مسند اسحاق بن راهويه
كتاب البيوع -- خرید و فروخت کے احکام و مسائل

بیع پر بیع کرنے کی ممانعت
حدیث نمبر: 437
أَخْبَرَنَا مُوسَى الْقَارِيُّ، نا الْمُفَضَّلُ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا كَثِيرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا يَسْتَامُ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ حَتَّى يَشْتَرِيَ أَوْ يَتْرُكَ، وَلَا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ حَتَّى يَنْكِحَ أَوْ يَرُدَّ، وَلَا تَسَأَلُ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتُفْرِغَ صَحْفَتَهَا؛ فَإِنَّ الْمُسْلِمَةَ أُخْتُ الْمُسْلِمَةِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے کسی (مسلمان) بھائی کے نرخ پر نرخ نہ لگائے حتیٰ کہ وہ خرید لے یا چھوڑ دے، آدمی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے حتیٰ کہ وہ نکاح کر لے یا اسے جواب مل جائے، عورت اپنی (مسلمان) بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کی پلیٹ (برتن) کو خالی کر لے، کیونکہ مسلمان عورت مسلمان عورت کی بہن ہے۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب البيوع، باب لابيع اخيه الخ، رقم: 2723، 2140، 2139. مسلم، كتاب النكا ح، باب تحريم الخطبة على خطبة الخ، رقم: 1413.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 437  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے کسی (مسلمان) بھائی کے نرخ پر نرخ نہ لگائے حتیٰ کہ وہ خرید لے یا چھوڑ دے، آدمی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے حتیٰ کہ وہ نکاح کر لے یا اسے جواب مل جائے، عورت اپنی (مسلمان) بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کی پلیٹ؍ برتن کو خالی کر لے، کیونکہ مسلمان عورت مسلمان عورت کی بہن ہے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:437]
فوائد:
(1) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کی بیع پر بیع نہیں کرنی چاہیے، یہ اس طرح ہے کہ دو آدمیوں نے سودا کر لیا اور اختیار دے دیا کہ اتنے دن تک تجھے اختیار ہے، تو چاہے واپس کر دے یا تو چاہے تو رکھ لے یا اسی طرح وہ چیز فروخت کرنے والا کہتا ہے کہ میں چاہوں تو اتنے دنوں کے اندر اندر تجھ سے چیز واپس لے سکتا ہوں، تو ایک آدمی اس خریدار کو کہتا ہے کہ تو یہ چیز واپس کر دے، میں تجھ کو اس سے بہتر چیز دیتا ہوں یا اس طرح کی چیز اس سے سستی دیتا ہوں یا اسی طرح مالک کو کہے کہ تو چیز واپس لے تو میں تجھ سے اس سے زیادہ قیمت پر خرید لیتا ہوں، یہ جائز نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں۔ (فتح الباري: 5؍ 88)
(2).... معلوم ہوا منگنی پر منگنی کرنا حرام ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ کوئی آدمی کسی گھر میں پیغام نکاح بھیجتا ہے، پھر ان دونوں گھروں میں موافقت ہو جائے، صرف عقد نکاح باقی رہ جائے تو کوئی اور آدمی بھی پیغام نکاح بھیج دے اور کہے کہ پہلے رشتے کو چھوڑ دو اور مجھ سے نکاح کر دو، ایسا کرنا ممنوع ہے۔ دوسرے آدمی کو صرف اس صورت میں پیغام بھیجنے کی اجازت ہے، جب پہلا آدمی رشتہ چھوڑ دے یا خود اس کی اجازت دے دے جیسا کہ حدیث میں ہے: ((حَتَّی یَتْرُكَ الْخَاطِبُ قَبْلَهٗ اَوْ یَاْذَنَ لَهٗ الْخَاطِبُ)) (بخاري، کتاب النکاح، رقم: 5142).... یہاں تک کہ پیغام بھیجنے والا اپنا ارادہ بدل دے۔ یا اسے پیغام نکاح بھیجنے کی اجازت دے دے تو جائز ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: یہ (حدیث اور ایسی تمام) احادیث اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کرنے کی حرمت کو ظاہر کر رہی ہیں۔ (شرح مسلم، للنووی: 5؍ 214)
(3).... کوئی عورت اپنی مسلمان بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔ اس کی دو شکلیں ہو سکتی ہیں جو درج ذیل ہیں: 1۔ یہ کہ کوئی مرد کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ عورت کہے: تو اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دے، پھر میں تجھ سے شادی کروں گی۔ تو ایسا کرنے میں اس کی حق تلفی ہے۔ 2۔ دوسرا یہ کہ عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے، مقصد یہ ہو کہ سوکن کو شوہر کی طرف سے جو سہولیات اور اخراجات وغیرہ میسر ہیں، وہ بھی اسے ہی مل جائیں تو ایسا کرنا بھی حرام ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 437