مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الجهاد -- جہاد کے فضائل و مسائل

خواتین کا حسبِ ضرورت جہاد میں شریک ہونا
حدیث نمبر: 524
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ بْنِ لَاحِقٍ، نا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَاذِ ابْنِ عَفْرَاءَ قَالَتْ: ((كُنَّا نَغْزُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَسْقِيهِمُ الْمَاءَ وَنَخْدُمُهُمْ وَنَرُدُّ الْقَتْلَى وَالْجَرْحَى إِلَى الْمَدِينَةِ)).
سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں، تو ہم ان (مجاہدین) کو پانی پلاتیں اور ان کی خدمت کرتی تھیں، اور ہم شہداء اور زخمیوں کو مدینہ منتقل کرتی تھیں۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الجهاد، باب مدواة النساء الجر حي فى الغزوه، رقم: 2882. مسند احمد: 358/6.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 524  
سیّدہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں، تو ہم ان (مجاہدین) کو پانی پلاتیں اور ان کی خدمت کرتی تھیں، اور ہم شہداء اور زخمیوں کو مدینہ منتقل کرتی تھیں۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:524]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا خواتین حسب ضرورت جہاد میں شریک ہو سکتی ہیں۔ لیکن خواتین کے ساتھ ان کے شوہر یا محرم کے ساتھ پردہ کی پابندی بھی ضروری ہے۔ لیکن افسوس! لوگ عہد نبوی کے ایسے چند واقعات سے استدلال کرتے ہوئے آج بھی خواتین میں جہاد کی ترغیب دلاتے اور حتیٰ کہ خواتین اور مردوں کے اختلاط کو بھی جائز سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ استدلال بے بنیاد اور غلط ہے، کیونکہ چند بوڑھی خواتین یا جوان باپردہ عورتیں جو مجاہدین کی مائیں، بہنیں وغیرہ ہوتیں زخمیوں کو مرہم پٹی اور پانی پلایا کرتیں، یہ ایسا موقع نہ ہوتا تھا کہ کسی بے پردگی کا مظاہرہ ہو ورنہ کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت ہی کا اندیشہ ہوا کرتا تھا۔ اس سے مخلوط سسٹم کے جواز کا استدلال قطعی طور پر درست نہیں۔
عورتوں پر جہاد فرض نہیں ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خواتین کا جہاد حج کرنا ہے۔ (بخاري، کتاب الجهاد، باب جهاد النساء)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 524