مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الخمس -- خمس کی فرضیت اور اس کے مسائل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے آپ کو خزانچی کہنا
حدیث نمبر: 542
وَبِهَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا أُوتِيتُكُمْ شَيْئًا وَلَا أَمْنَعُكُمُوهُ إِنْ أَنَا إِلَّا خَازِنٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ)).
اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں (اپنی طرف سے) تمہیں کوئی چیز دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں، میں تو ایک خزانچی ہوں اور جیسے مجھے حکم ہوتا ہے ویسے ہی عطا کرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب فرض الخمس، باب قول الله تعالىٰ (قان لله خمسه وللرسول) رقم: 3117. سنن ابوداود، كتاب الخراج والفي، باب فيما يلزم الامام الخ، رقم: 2949. مسند احمد: 314/2.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 542  
اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں (اپنی طرف سے) تمہیں کوئی چیز دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں، میں تو ایک خزانچی ہوں اور جیسے مجھے حکم ہوتا ہے ویسے ہی عطا کرتا ہوں۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:542]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدُ ولدِ آدم ہونے کے باوجود اپنے آپ کو اللہ ذوالجلال کی طرف سے خزانچی باور کر وا رہے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاست کے وسائل حکمرانوں کی ملکیت نہیں ہوتے، بلکہ تمام باشندوں کا اس میں حق ہوتا ہے۔
مذکورہ بالاحدیث کا تعلق بالخصوص مسئلہ خمس سے ہے اور بالعموم اسلام کے تمام اوامر ونواہی سے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملہ میں تصرف کا کوئی اختیار نہیں تھا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہی فرماتے جس کا حکم اللہ ذوالجلال کی طرف سے نازل ہوتا، کیونکہ وہی ہستی تمام اموال واختیارات کی مالک اور متصرف فی الامور ہے، وہی دینے والا اور روکنے والا مختار کل ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کی حیثیت تو نگران خزانہ کی سی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیے ہوئے احکامات کو نافذ کرنے والی ہے، اب چاہے کسی کو کم ملے یا وافر مقدار میں، یہ دونوں حکم الٰہی پر محمول ہوں گے۔ علاوہ ازیں اس بات پر تمام اہل علم متفق ہیں کہ جب تک مال غنیمت کی تقسیم اور خمس (5؍1) (جو مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف ہو، اس کو خمس کہتے ہیں) اللہ ذوالجلال کی طرف سے حصہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کی تقسیم اپنے اجتہاد سے کیا کرتے تھے۔ اس پر مستزادیہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال غنیمت اور خمس کے متعلق بڑے جامع انداز کے ساتھ بیان فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد باری ہے: ﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ﴾ (الانفال:41) اور جان لو کہ جو بھی مال غنیمت تمہارے ہاتھ آئے، اس کا خمس اللہ اور اس کے رسول کے لیے اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہوگا۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 542