مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الفضائل -- فضائل کا بیان

تین زمانوں کا بیان
حدیث نمبر: 553
أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ ثَالِثًا أَمْ لَا قَالَ: ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ يُسَمَّونَ السَّمَّانَةَ، يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین (زمانہ) میرا زمانہ ہے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔ راوی کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم انہوں نے تیسری دفعہ زمانہ کا ذکر کیا یا نہیں، فرمایا: پھر ایک ایسی قوم آئے گی جو مٹاپے کو پسند کرے گی، وہ گواہی دیں گے جبکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الشهادت، باب لا يشهد على شهادة جور، رقم: 2651. مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة الخ، رقم: 2534. مسند احمد: 410/2.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 553  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین (زمانہ) میرا زمانہ ہے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔ راوی کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم انہوں نے تیسری دفعہ زمانہ کا ذکر کیا یا نہیں، فرمایا پھر ایک ایسی قوم آئے گی جو مٹاپے کو پسند کرے گی، وہ گواہی دیں گے جبکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:553]
فوائد:
قرن سے مراد ایک زمانے کے لوگ یعنی ایک نسل کے لوگ ہوتے ہیں۔ مذکورہ حدیث میں تین زمانوں کا تذکرہ ہے: ایک عہد رسالت یا عہد صحابہ، دوسرا تابعین اور تیسرا عہد تبع تابعین کا۔ مذکورہ حدیث سے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی عظمت کا بھی اثبات ہوتا ہے۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: پہلا زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا، یہ بعثت سے لے کر آخری صحابی کی وفات تک یعنی ایک سو بیس سال تک ہے، پھر تابعین کا دور 100 ہجری سے 170 ہجری تک جاری رہا۔ پھر تبع تابعین کا دور 220 ہجری تک جاری رہا۔ (مرقاة المفاتیح: 10؍ 360)
ان تین زمانوں کے بعد بدعات کا ظہور ہوا اور لوگوں میں دین پر عمل کرنے میں کمی آتی رہی اور دین میں طرح طرح کی لوگوں نے بدعات نکالیں، حقیقت یہ ہے کہ جس طرح پہلا دور زیادہ افضل، پھر دوسرا، پھر اس کے بعد تیسرا، اس کے بعد نیکیوں میں کمی آتی گئی اور برائیاں عروج پر پہنچیں اسی طرح ہر آنے والا دور پہلے سے بدتر واقع ہو رہا ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 553