مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الفضائل -- فضائل کا بیان

بنو تمیم کی فضیلت
حدیث نمبر: 555
أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَا أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ بَعْدَ ثَلَاثٍ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ قَالَ: ((هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ))، فَكَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَبْيَةٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتِقِيهَا فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ"، وَجَاءَتْ صَدَقَاتُ بَنِي تَمِيمٍ فَقَالَ: ((هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، میں نے جب سے بنو تمیم کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین صفات سنی ہیں تب سے میں ان سے محبت کر رہا ہوں (اور یہ محبت جاری رہے گی)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دجال کے بارے میں میری امت میں سے سب سے زیادہ سخت و قوی ہیں۔ ان کی ایک لونڈی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے آزاد کر دو، کیونکہ وہ بنو اسماعیل میں سے ہے۔ اور بنو تمیم کے صدقات آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب المغازي، رقم: 4366. مسلم، كتاب فضائل الصحابة رضي الله عنهم، باب من فضائل غفار واسلم وجهينة واشجع الخ، رقم: 2525.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 555  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، میں نے جب سے بنو تمیم کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین صفات سنی ہیں تب سے میں ان سے محبت کر رہا ہوں (اور یہ محبت جاری رہے گی)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دجال کے بارے میں میری امت میں سے سب سے زیادہ سخت وقوی ہیں۔ ان کی ایک لونڈی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے آزاد کر دو، کیونکہ وہ بنو اسماعیل میں سے ہے۔ اور بنو تمیم کے صدقات آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:555]
فوائد:
(1).... مذکورہ روایت سے معلوم ہوا اچھی صفات والوں سے محبت کرنا مستحب ہے۔
(2).... بنو تمیم عرب قبائل میں سے ایک معزز قبیلہ تھا۔ اور اس قبیلے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قبیلہ اس لیے فرمایا کیونکہ ان کا نسب نامہ مضر تک پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جاتا ہے۔ تمیم بن مرہ بن ادبن طانحہ بن الیاس بن مضر اور بنو تمیم کی عورت کو اولادِ اسماعیل علیہ السلام سے اس لیے کہا، کیونکہ بنوتمیم کا نسب نامہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے ملتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ معزز خاندان کے افراد کا عزت واحترام بھی کرنا چاہیے بشرطیکہ وہ اچھے لوگ ہوں، اگر وہ نیک نہیں، تو ان کی عزت کرنا جائز نہیں ہے۔
جیسا کہ موجودہ معاشرے میں ہے کہ فلاں آدمی کا تعلق سید خاندان سے ہے، یہ سید ہے، اس کا احترام کرنا چاہیے صورتحال یہ ہوتی ہے کہ وہ آدمی شریعت کا نہ پابند ہوتا ہے اور نہ اس میں اعلیٰ انسانوں جیسی صفتیں ہوتی ہیں، تو ایسے لوگوں کی عزت نہیں کرنی چاہیے۔ جیسا کہ سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے کے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے، سیدنا نوح علیہ السلام نے فرمایا: اے اللہ! ﴿اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ﴾ (ہود: 45).... میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے۔
اللہ ذوالجلال نے فرمایا: ﴿یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ﴾ (ہود: 46).... اے نوح! وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے، اس کے کام ہی ناشائستہ ہیں۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 555