مسند اسحاق بن راهويه
كتاب فضائل القرآن -- قرآن مجید کے فضائل کا بیان

سورۂ بقرہ کی فضیلت
حدیث نمبر: 576
وَبِهَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((كُلُّ مُسْلِمٍ عَلَى مُسْلِمٍ مُحَرَّمٌ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخْرُجُ مِنَ الْبَيْتِ يَسْمَعُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، تُقْرَأُ فِيهِ))، وَقَالَ: ((التَّأَنِّي مِنَ اللَّهِ وَالْعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ)).
اسی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے جس میں وہ سورہ البقرہ کی تلاوت سنتا ہے۔ اور فرمایا: صبر اللہ کی طرف سے ہے اور عجلت شیطان کی طرف سے ہے۔

تخریج الحدیث: «مسلم، رقم: 780. سنن ترمذي، رقم: 877. عمل اليوم والليلة، رقم: 965. مسند احمد: 388، 378، 377/2. مسندي حميدي، رقم: 994.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 576  
اسی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے جس میں وہ سورۂ البقرہ کی تلاوت سنتا ہے۔ اور فرمایا: صبر اللہ کی طرف سے ہے اور عجلت شیطان کی طرف سے ہے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:576]
فوائد:
(1) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر خون، عزت اور مال حرام ہے۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے: ((کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهٗ وَعِرْضُهٗ وَمَالُهٗ۔)).... ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون، اس کی عزت اور اس کا مال حرام ہے۔
(2).... مذکورہ بالاحدیث سے سورہ بقرہ کی بھی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ جس گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جائے، شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، جس گھر میں سورۂ بقرہ پڑھی جائے، اس گھر میں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔ (سنن ترمذي، ابواب فضائل القرآن، باب ماجاء فی سورة البقرة واٰیة الکرسی)
(3).... مذکورہ بالا حدیث سے صبر کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ اللہ ذوالجلال کی طرف سے ہے۔
(4).... معلوم ہوا جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ آہستہ اور سوچ سمجھ کر کام کرنا، اس کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن سرجس المزنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھی وضع قطع اور ٹھہر کر کام کرنا اور میانہ روی نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ (سنن ترمذي، رقم: 2010)
معلوم ہوا ہر معاملہ میں تحمل، بردباری اور میانہ روی کو اختیار کرنا چاہیے۔
کیونکہ جتنی جلدی ہوگی اتنا ہی شیطان کا دخل زیادہ ہوگا، البتہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ ان میں دیر کرنا وقت ضائع کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنا ہے، اگر ایسے کاموں میں دیر کرے گا تو خطرہ ہے کہ بعد میں اللہ ذوالجلال توفیق نہ چھین لے۔ جیسا کہ اللہ ذوالجلال نے فرمایا: ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ﴾ (المآئدۃ: 48).... نیکیوں کی طرف آگے بڑھو۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 576