مسند اسحاق بن راهويه
كتاب التفسير -- قرآن مجید کی تفسیر کا بیان

کیا بچے جنت میں جائیں گے؟
حدیث نمبر: 581
اَخْبَرَنَا اَبُوْ الْوَلِیْدِ، نَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ اَبِیْ مُلَیْکَةَ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ الْوَلَدَانِ اَفِی الْجَنَّةِ هُمْ؟ قَالَ: حَسْبُكَ مَا اخْتَصَمَ فِیْهِ مُوْسَی وَالْخَضِرَ.
ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بچوں کے متعلق پوچھا گیا کیا وہ جنت میں ہوں گے؟ انہوں نے فرمایا: اس بارے میں موسیٰ و خضر علیہ السلام نے بحث و مباحثہ کیا، وہ تمہارے لیے کافی ہے۔

تخریج الحدیث: «مستدرك حاكم: 401/2. اسناده صحيح.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 581  
ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بچوں کے متعلق پوچھا گیا: کیا وہ جنت میں ہوں گے؟ انہوں نے فرمایا: اس بارے میں موسیٰ وخضر علیہ السلام نے بحث ومباحثہ کیا، وہ تمہارے لیے کافی ہے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:581]
فوائد:
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اشارہ اس آیت کی طرف تھا: ﴿فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗ قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّةً بِغَیْرِ نَفْسٍ﴾ (الکهف:74) .... پھر دونوں (سیّدنا موسیٰ اور سیّدنا خضر علیہ السلام) چلے یہاں تک کہ ایک لڑکے کو پایا، اس نے اسے مار ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ کیا آپ نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا؟ تو سیّدنا خضر علیہ السلام نے فرمایا: ﴿وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا﴾ (الکهف:80) .... اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے، ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انہیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز وپریشان نہ کردے۔
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ حقیقت تو اللہ ذوالجلال ہی جانتے ہیں کہ بچے نے بڑے ہو کر نیک بننا تھا یا برا، کیونکہ سیّدنا خضر علیہ السلام کو اللہ ذوالجلال کی طرف سے علم دیا گیا تھا۔ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں جائیں گے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 581