مسند اسحاق بن راهويه
كتاب التفسير -- قرآن مجید کی تفسیر کا بیان

سورۂ انفال آیت 66-70 کا تفسیری بیان
حدیث نمبر: 586
اَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِیْرِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنِیْ اَبِیْ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ اِسْحَاقَ یُحَدِّثُ قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَبْدُاللّٰهِ بْنُ اَبِیْ نُجَیْحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اِفْتَرَضَ (اللّٰهُ) عَلَیْهِمْ اَنْ یُّقَاتِلَ الْوَاحِدُ الْعَشْرَةَ، فَثَقُلَ ذٰلِكَ عَلَیْهِمْ، وَشَقَّ ذٰلِكَ عَلَیْهِمْ، فَوَضَعَ اللّٰهُ عَنْهُمْ ذٰلِكَ اِلٰی اَنْ یُّقَاتِلَ الْوَاحِدُ الرَّجُلَیْنِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ: ﴿اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ﴾ تَـلَا اِلٰی قَوْلِهٖ اِلٰی آخِرِ الْآیَاتِ ثُمَّ قَالَ: ﴿لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ یَعْنِیْ غَنَائِمَ بَدْرٍ، یَقُوْلُ: لَوْلَا اِنِّیْ لَا اُعَذِّبُ مَنْ عَصَانِیْ حَتّٰی اَتَقَدَّمَ اِلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: ﴿یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا﴾ الآیۃ۔ قَالَ الْعَبَّاسُ: فِی نَزَلَتْ، حِیْنَ اَخْبَرْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِاِسْلَامِیْ، وَسَأَلْتُهٗ اَنْ لَّا یُحَاسِبُنِیْ بِالْعِشْرِیْنَ اَوْقِیَةِ الَّتِیْ اَخَذَتْ مِنِّیْ، فَاَعْطَانِیْ عِشْرِیْنَ عَبْدًا، کُلُّهُمْ قَدْ تَاَجَّرَ بِمَالٍ فِیْ یَدِہِ، مَعَ مَا اََدَّخَرَہٗ مِنْ مَّغْفِرَةِ اللّٰهِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، اللہ نے ان پر فرض کیا کہ ایک دس سے قتال کرے، پس یہ ان پر گراں گزرا اور مشکل ہو گیا، تو اللہ نے اس (مشقت، بوجھ) کو ان سے دور کر دیا اور یہ حکم دیا کہ ایک دو سے قتال و مقابلہ کرے، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ» اگر تم میں صبر کرنے والے بیس ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ اور پھر آیات کے آخر تک تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: «لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ» اگر اللہ کا حکم پہلے سے طے شدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے، اس پر تمہیں سخت ترین سزا ملتی۔ یعنی غزوہ بدر کے اموال غنیمت، وہ فرماتا ہے: میرا دستور ہے کہ میں اپنی نافرمانی کرنے والے کو سزا نہیں دیتا حتیٰ کہ میں اسے پیشگی انتباہ کرتا ہوں، پھر فرمایا: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا» اے نبی! آپ کے قبضے میں جو بھی قیدی ہیں، ان سے کہہ دیجیئے کہ اگر اللہ کو معلوم ہو گا کہ تمہارے دلوں میں کوئی نیکی ہے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی جس وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام کے متعلق خبر دی، اور ان سے درخواست کی کہ آپ نے مجھ سے جو بیس اوقیہ لیے ہیں، ان کے بدلے میں میرا محاسبہ نہ کریں، پس آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیس غلام دے دیئے، ان سب نے اس مال سے تجارت کی جو کہ آپ کے قبضے میں تھا، اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف سے مغفرت کو ذخیرہ کیا۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب التفسير، باب ايها النبى حرض المؤمنين الخ، رقم: 4652. سنن ابوداود، رقم: 2646. سنن كبري بيهقي: 76/9. صحيح ابن حبان، رقم: 4773.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 586  
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، اللہ نے ان پر فرض کیا کہ ایک دس سے قتال کرے، پس یہ ان پر گراں گزرا اور مشکل ہوگیا، تو اللہ نے اس (مشقت، بوجھ) کو ان سے دور کر دیا اور یہ حکم دیا کہ ایک دو سے قتال و مقابلہ کرے، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: اگر تم میں صبر کرنے والے بیس ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ اور پھر آیات کے آخر تک تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: اگر اللہ کا حکم پہلے سے طے شدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے،اس پر تمہیں سخت ترین سزا ملتی۔ یعنی غزوۂ بدر کے اموال غنیمت، وہ فرماتا ہے: میرا دستور ہے کہ میں اپنی نافرمانی کرنے والے کو سزا نہیں دیتا حتیٰ کہ میں اسے پیشگی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:586]
فوائد:
مذکورہ روایت کے پہلے حصے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَةٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ() اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْکُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ مَعَ الصَّبِرِیْنَ﴾ (الانفال: 6،66)
اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ، اگر تم میں بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں ایک سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے، اس واسطے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں۔ اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے۔ پس اگرتم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
روایت کا دوسرا حصہ: جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنا لیے گئے۔ کیونکہ یہ کفر واسلام کا پہلا معرکہ تھا، اس لیے قیدیوں کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے؟ ان کی بابت احکام پوری طرح واضح نہیں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ستر قیدیوں کے متعلق سیّدنا ابوبکر، سیّدنا عمر اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ ان قیدیوں کا کیا کیا جائے؟ تو سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! ہم ایک دوسرے کے چچا زاد اور رشتہ دار ہیں۔ لہٰذا میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ اس مال سے کافروں کے مقابلے میں ہماری دفاعی قوت مضبوط ہوگی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ممکن ہے اللہ ان قیدیوں کو اسلام کی طرف لا کر ہدایت سے نواز دے۔
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ کفر کی قوت وشوکت توڑنے کے لیے ضروری ہے ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے کیونکہ یہ کفر اور کافروں کے سرغنے ہیں۔ یہ آزاد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں گے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند فرمایا اور فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا۔ تو اللہ ذوالجلال نے یہ آیات نازل فرمائیں:
﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ() لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾
(الانفال: 67،68)
نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہئیں، جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہوجائے تم تو دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے۔ اور اللہ زور آور باحکمت ہے۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے، اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔
یعنی اللہ ذوالجلال چاہتے تھے کہ قیدی بنانے میں جلدی نہ کی جاتی، بلکہ کافروں کو تہ تیغ کرکے خوب خون ریزی کی جاتی تو اس کے بعد ﴿فَاَمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاءً﴾ (محمد:4) احسان کرکے چھوڑنا یا فدیہ لے کر چھوڑنا بعد کی باتیں ہیں۔
﴿لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (الانفال:68)
مفسرین لکھتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے مالِ غنیمت حلال تھا، اگرچہ پہلی امتوں کے لیے حلال نہیں تھا، اگر تمہارے لیے تقدیر میں حلال نہ لکھا ہوتا تو جو تم نے فدیہ لے کر چھوڑا ہے، اس کی وجہ سے تمہیں عذاب عظیم پہنچتا۔
روایت کا تیسرا اور آخری حصہ: سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ مسلمان تھے۔ لیکن مکہ مکرمہ میں رہتے تھے اور ابھی تک انہوں نے اپنے اسلام کا اظہار بھی واضح طور پر نہیں کیا تھا، غزوۂ بدر میں قیدی بن کر آئے۔ تو سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام کا اظہار کیا تو اللہ ذوالجلال نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓی اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا یُّؤْتِکُمْ خَیْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (الانفال: 70) .... اے نبی! اپنے ہاتھ تلے کے قیدیوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا اور پھر تمھارے گناہ بھی معاف فرمائے گا۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اللہ ذوالجلال نے دنیوی مال ودولت سے بعد میں خوب نوازا۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 586