مسند اسحاق بن راهويه
كتاب التفسير -- قرآن مجید کی تفسیر کا بیان

سورۂ انفال آیت 66-70 کا تفسیری بیان
حدیث نمبر: 587
اَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ وَیَحْیَی بْنُ آدَمَ قَالَا: نَا اِسْرَائِیْلُ، عَنْ سِماكِ ابْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا فَرَغَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِتَالِ بَدْرٍ، قِیْلَ لَهٗ: عَلَیْكَ الْعَیْر لَیْسَ دُوْنِہَا شَـْیٌٔ، فَنَادَاہٗ الْعَبَّاسُ وَهُوَ فِیْ وِثَاقِهٖ: اِنَّہٗ لَا یُصْلِحُ لَكَ، قَالَ: لِمَ؟ قَالَ: لِاَنَّ اللّٰه وَعْدَكَ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ، وَقَدْ اَنْجَزَ لَكَ مَا وَعْدَكَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتال بدر سے فارغ ہوئے تو آپ سے کہا گیا: آپ اس تجارتی قافلے کو لازم رکھیں، اس کے سوا کوئی چیز نہیں، تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں آواز دی، جبکہ وہ اپنے بندھن میں تھے (ان کو رسی کے ساتھ باندھا گیا تھا) کہ وہ آپ کے لیے درست نہیں، فرمایا: کس لیے (درست نہیں)؟ فرمایا: کیونکہ اللہ نے آپ سے دو میں سے ایک جماعت کا وعدہ کیا تھا، اس نے آپ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ آپ سے پورا فرمایا۔

تخریج الحدیث: «سنن ترمذي، ابواب التفسير، باب ومن سورة الانفال، رقم: 3080. قال الشيخ الالباني: ضعيف.»