صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
52. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4292
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى : " مَا أَخْبَرَنَا أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى غَيْرَ أُمِّ هَانِئٍ ، فَإِنَّهَا ذَكَرَتْ أَنَّهُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ اغْتَسَلَ فِي بَيْتِهَا، ثُمَّ صَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، قَالَتْ: لَمْ أَرَهُ صَلَّى صَلَاةً أَخَفَّ مِنْهَا غَيْرَ أَنَّهُ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو نے ‘ ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا ہمیں کسی نے یہ خبر نہیں دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز پڑھی ‘ انہی نے کہا کہ جب مکہ فتح ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے اتنی ہلکی نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر بھی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدہ پوری طرح کرتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4292  
4292. ابن ابی لیلیٰ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ام ہانی‬ ؓ ک‬ے علاوہ ہمیں کسی نے یہ خبر نہیں دی کہ اس نے نبی ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے، ام ہانی نے بتایا کہ جب مکہ فتح ہوا تو آپ ﷺ نے ان کے گھر غسل فرمایا، پھر آٹھ رکعات ادا کیں۔ انہوں نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو اتنی ہلکی پھلکی نماز پڑھتے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، البتہ آپ رکوع اور سجود پوری طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4292]
حدیث حاشیہ:
ہلکی پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نماز میں آپ نے قرات بہت مختصر کی تھی حدیث سے مقصد یہا ں یہ ثابت کرنا ہے کہ فتح مکہ کے دن آنحضرت ﷺ کا قیام ام ہانی ؓ کے گھر میں تھا۔
ام ہانی ؓ کے ہاں آپ نے جو نماز ادا فرمائی اس بابت حافظ ابن قیم ؓ اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں لکھتے ہیں:
ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - دَارَ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، فَاغْتَسَلَ وَصَلَّى ثَمَانَ رَكَعَاتٍ فِي بَيْتِهَا، وَكَانَتْ ضُحًى فَظَنَّهَا مَنْ ظَنَّهَا صَلَاةَ الضُّحَى، وَإِنَّمَا هَذِهِ صَلَاةُ الْفَتْحِ، وَكَانَ أُمَرَاءُ الْإِسْلَامِ إِذَا فَتَحُوا حِصْنًا أَوْ بَلَدًا صَلَّوْا عَقِيبَ الْفَتْحِ، هَذِهِ الصَّلَاةَ اقْتِدَاءً بِرَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَفِي الْقِصَّةِ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّهَا بِسَبَبِ الْفَتْحِ شُكْرًا لِلَّهِ عَلَيْهِ، فَإِنَّهَا قَالَتْ:
مَا رَأَيْتُهُ صَلَّاهَا قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا.(زاد المعاد)
یعنی پھر رسول کریم ﷺ ام ہانی ؓ کے گھر میں داخل ہوئے اور آپ نے وہاں غسل فرما کر آٹھ رکعات نماز ان کے گھر میں اداکی اور یہ ضحی کا وقت تھا۔
پس جس نے گمان کیا اس نے کہا کہ یہ ضحی کی نماز تھی حالانکہ یہ فتح کے شکرانہ کی نماز تھی۔
بعد میں امراءاسلام کا بھی یہی قاعدہ رہا کہ سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے جب بھی کوئی شہر یا قلعہ فتح کرتے اس نماز کو ادا کرتے تھے اور قصہ میں ایسی دلیل بھی موجود ہے جو اسے نماز شکر انہ ہی ثابت کرتی ہے۔
وہ حضرت ام ہانی ؓ کا یہ قول ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی پہلے یا پیچھے اس نماز کو پڑھا ہو۔
اس سے بھی ثابت ہوا کہ یہ فتح کی خوشی میں شکرانہ کی نماز تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4292   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4292  
4292. ابن ابی لیلیٰ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ام ہانی‬ ؓ ک‬ے علاوہ ہمیں کسی نے یہ خبر نہیں دی کہ اس نے نبی ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے، ام ہانی نے بتایا کہ جب مکہ فتح ہوا تو آپ ﷺ نے ان کے گھر غسل فرمایا، پھر آٹھ رکعات ادا کیں۔ انہوں نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو اتنی ہلکی پھلکی نماز پڑھتے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، البتہ آپ رکوع اور سجود پوری طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4292]
حدیث حاشیہ:

ام ہانی ؓ کانام فاختہ ہے۔
اور یہ حضرت علی ؓ کی حقیقی بہن ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی ان سے قریبی رشتے داری تھی، اس لیے آپ نے ان کے گھر میں غسل فرمایا اورنماز چاشت پڑھی۔
(عمدة القاري: 274/12۔
)


رسول اللہ ﷺ کا مستقل قیام توخیف بنوکنانہ میں تھا جہاں کفار قریش نے کفرپر جمے رہنے کی قسمیں اٹھائی تھیں اور وہ شعب ابی طالب کے سامنے تھا جہاں مسلمانوں کو کافی مدت تک بائیکاٹ کے نتیجے میں محبوس ہوناپڑا۔
حضرت ام ہانی ؓ کے گھر میں رسول اکرم ﷺ کامستقل قیام نہیں تھا، وہاں آپ ﷺ نے صرف غسل کیا اور اشراق پڑھی، پھرخیف کی طرف واپس چلے گئے جہاں آپ کے لیے خیمہ نصب تھا۔
اسے وادی محصب بھی کہتے ہیں۔
(فتح الباري: 25/8۔
)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4292