مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المرضٰي و الطب -- مریضوں اور ان کے علاج کا بیان

چھوت کی بیماری، بدشگونی اور صفر کی نحوست کا بیان
حدیث نمبر: 669
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أنا هُشَيْمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شُبْرُمَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت کی بیماری، بدشگونی، اور صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت نہیں۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الطب، باب لاهامة، رقم: 5757. مسلم، كتاب السلام، باب لاعدوي ولا طبرة الخ، رقم: 2220. سنن ابوداود، رقم: 3911. مسند احمد: 267/2.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 669  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوت کی بیماری، بدشگونی، اور صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت نہیں۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:669]
فوائد:
(1) عدوی:.... مرض لگنے کو کہتے ہیں، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ ایک کو دوسرے کا مرض لگ جاتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اس عقیدہ کی تردید کی۔ ایک صحابی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ہم کھجلی والے اونٹ کو بے کھجلی والے اونٹوں میں باندھ دیتے ہیں تو اچھے اونٹ کو بھی کھجلی لگ جاتی ہے۔ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے اونٹ کو کھجلی والا کس نے بنایا۔ (صحیح مسلم، رقم: 2220)
معلوم ہوا جس طرح پہلے انسان کو اللہ ذوالجلال کی مشیت سے بیماری لگتی ہے، اسی طرح باقی انسانوں یا جانوروں کو بھی اللہ ذوالجلال کی مشیت سے ہی بیماری لگتی ہے، بذاتہ کوئی بیماری بھی متعدی نہیں ہے۔
(2) طیرہ:.... بدشگونی۔ دور جاہلیت میں لوگ کسی لمبے سفر یا اہم کام کے شروع میں پرندے کو اڑاتے اگر وہ پرندہ دائیں جانب جاتا تو اس کو بابرکت اور کامیاب سمجھتے اور اپنا سفر یا کام جاری کر دیتے۔ اور اگر وہ بائیں جانب پرواز کرتا تو اپنے پروگرام کو ترک کر دیتے، اس لیے کہ وہ اس کو منحوس سمجھتے،شریعت اسلامیہ نے اس کام کی مذمت کی ہے اور اس کو شرک کہا ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ((اَلطِّیَرَهُ شِرْكٌ اَلطِّیْرَةٌ شِرْكٌ.... الخ)) (سنن ابي داود، رقم: 3910) بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے۔
موجود عہد میں اس سلسلہ کی بے شمار رسوم مروج ہیں مثلاً بلی کے راستہ کاٹنے کو منحوس تصور کرنا، اسی طرح ماہِ صفر میں کسی خیر کا آغاز نہ کرنا وغیرہ۔
(3) ہامہ:.... لوگوں کا زمانہ جاہلیت میں یہ عقیدہ تھا کہ اگر مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی روح الو کی شکل اختیار کر کے بھٹکتی اور چیختی پھرتی ہے اور بدلہ لینے کا مطالبہ کرتی ہے اور اس جاہلانہ تصور کی وجہ سے لوگوں کی لڑائیاں ہوتیں اور یہ لڑائی کا سلسلہ نسل در نسل چلتا، شریعت اسلامیہ نے اس تصور کو غلط قرار دیا ہے۔
(4) صفر:.... دور جاہلیت کے شرکیہ عقائد میں سے صفر بھی تھا، صفر کے متعلق ان کا گمان تھا کہ صفر پیٹ کا ایک کیڑا ہے جو بھوک کے وقت پیٹ کو نوچتا ہے، کبھی آدمی اس کی وجہ سے مر جاتا ہے۔ عرب لوگ اس بیماری کو متعدی سمجھتے تھے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے صفر کے یہی معنی نقل کیے ہیں۔ (مسلم، کتاب السلام، رقم: 5797)
بعض نے اس سے صفر کا مہینہ مراد لیا ہے۔ کیونکہ مشرکین ماہ محرم کو حلال کرنے کے لیے اس کے بدلے ماہ صفر کو حرمت والا مہینہ بنا لیا کرتے تھے۔ اور یہ بھی بعض نے کہا ہے کہ ماہ صفر کو زمانہ جاہلیت میں منحوس سمجھتے، اب بھی یہ جاہلانہ رسم مسلمانوں کے اندر موجود ہے کہ لوگ اس مہینے میں شادی کرنا منحوس خیال کرتے ہیں۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 669