مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المرضٰي و الطب -- مریضوں اور ان کے علاج کا بیان

تکلیف و بیماری میں صبر کے فوائد
حدیث نمبر: 671
قُلْتُ لِأَبِي أُسَامَةَ: أَحَدَّثَكُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْأَشْعَرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْحُمَّى: أَنْتِ نَاري أُسَلِّطُكِ عَلَى عَبْدِي الْمُؤْمِنِ فِي الدُّنْيَا كَيْ يَكُونَ حَطَبُهُ مِنَ النَّارِ"، فَأَقَرَّ بِهِ، وَقَالَ: نَعَمْ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل بخار سے فرماتا ہے: تم میری آگ ہو، میں تمہیں دنیا میں اپنے مومن بندے پر مسلط کرتا ہوں تاکہ وہ اس کا جہنم کی آگ میں سے حصہ ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجه، كتاب الطب، باب الحمي، رقم: 3470. قال الالباني: صحيح. مسند احمد: 440/2. طبراني اوسط، رقم: 10.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 671  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل بخار سے فرماتا ہے: تم میری آگ ہو، میں تمہیں دنیا میں اپنے مومن بندے پر مسلط کرتا ہوں تاکہ وہ اس کا جہنم کی آگ میں سے حصہ ہو جائے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:671]
فوائد:
مذکورہ حدیث میں مومنوں کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اگر مومن بیمار ہو جائے تو اس کے عوض اللہ ذوالجلال اس کو جہنم کی آگ سے بچا لے گا۔ اللہ ذوالجلال سے تکلیف مانگنی نہیں چاہیے، لیکن اگر تکلیف آئے تو بشاشت سے صبر کرنا چاہیے۔ اور عافیت کی دعا بھی کرتے رہنا چاہیے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آیا، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سے) سوال کیا تجھے (کبھی) بخار ہوا؟ اس نے کہا: بخار کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جلد اور گوشت کے درمیان گرمی (پیدا ہو جانا) اس نے کہا: نہیں (کبھی ایسا نہیں ہوا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تجھے صداع یعنی (سر میں درد) ہوا ہے؟ اس نے کہا: صداع کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک ہوا ہے جو سر میں گھس جاتی ہے اور رگوں پر ضرب لگاتی ہے۔ اس نے کہا: نہیں۔ (ایسا کبھی نہیں ہوا) راوی کہتے ہیں کہ جب وہ شخص وہاں سے کھڑا ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کو یہ پسند ہو کہ دوزخ والوں میں سے کسی شخص کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اس شخص کو دیکھ لے۔ (ادب المفرد للبخاري، رقم: 495) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو حسن صحیح کہا ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 671