صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
51. بَابُ مَنْزِلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ:
باب: فتح مکہ کے دن قیام نبوی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4294
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لِمَ تُدْخِلُ هَذَا الْفَتَى مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ مِمَّنْ قَدْ عَلِمْتُمْ، قَالَ: فَدَعَاهُمْ ذَاتَ يَوْمٍ وَدَعَانِي مَعَهُمْ، قَالَ: وَمَا رُئِيتُهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيَهُمْ مِنِّي، فَقَالَ: مَا تَقُولُونَ فِي: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ {1} وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا {2} سورة النصر آية 1-2؟ حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا نَدْرِي أَوْ لَمْ يَقُلْ بَعْضُهُمْ شَيْئًا؟ فَقَالَ لِي: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَكَذَاكَ تَقُولُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَمَا تَقُولُ؟ قُلْتُ: هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ اللَّهُ لَهُ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1 فَتْحُ مَكَّةَ، فَذَاكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا سورة النصر آية 3، قَالَ عُمَرُ: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوبشر نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے ‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ مجھے اپنی مجلس میں اس وقت بھی بلا لیتے جب وہاں بدر کی جنگ میں شریک ہونے والے بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم بیٹھے ہوتے۔ اس پر بعض لوگ کہنے لگے اس جوان کو آپ ہماری مجلس میں کیوں بلاتے ہیں؟ اس کے جیسے تو ہمارے بچے بھی ہیں۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا وہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کا علم و فضل تم جانتے ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ان بزرگ صحابیوں کو ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا اور مجھے بھی بلایا۔ بیان کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ مجھے اس دن آپ نے اس لیے بلایا تھا تاکہ آپ میرا علم بتا سکیں۔ پھر آپ نے دریافت کیا «إذا جاء نصر الله والفتح * ورأيت الناس يدخلون‏» ‘ ختم سورت تک ‘ کے متعلق تم لوگوں کا کیا خیال ہے؟ کسی نے کہا کہ ہمیں اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کی حمد بیان کریں اور اس سے استغفار کریں کہ اس نے ہماری مدد کی اور ہمیں فتح عنایت فرمائی۔ بعض نے کہا کہ ہمیں اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہے اور بعض نے کوئی جواب نہیں دیا پھر انہوں نے مجھ سے دریافت کیا: ابن عباس! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں ‘ پوچھا ‘ پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح حاصل ہو گئی۔ یعنی فتح مکہ تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی نشانی ہے۔ اس لیے آپ اپنے رب کی حمد اور تسبیح اور اس کی مغفرت طلب کریں کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا وہی میں بھی سمجھتا ہوں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4294  
4294. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمیا کہ حضرت عمر ؓ مجھے شیوخ بدر کے ساتھ بٹھاتے تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا: آپ اس بچے کو ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں جبکہ اس جیسے تو ہمارے اپنے بیٹے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی علمی فضیلت تم لوگ بھی جانتے ہو، چنانچہ ایک دن حضرت عمر ؓ نے شیوخِ بدر کو بلایا اور ان کے ساتھ مجھے بھی آنے کی دعوت دی۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے اس لیے بلایا گیا تاکہ انہیں میری برتری دکھائیں۔ انہوں نے فرمایا: تم لوگ اس سورت کے متعلق کیا جانتے ہو؟ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣﴾ ) حتی کہ انہوں نے پوری سورت پڑھی۔ ان میں سے کسی نے کہا: نصرت و فتح کے بعد ہمیں اللہ کی حمد و ثنا اور اس سے معافی مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کچھ نے کہا: ہمیں معلوم نہیں۔ کچھ تو بالکل خاموش رہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4294]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ نے دین کی ایک بات پوچھ کر ابن عباس ؓ کی فضیلت بوڑھوں پر ظاہر کردی جیسے اللہ تعالی نے آدم کو علم دے کر بڑی بڑی عمر والے فرشتوں پر ان کی فضیلت ثابت کر دی اور ان فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو۔
حدیث میں وفات نبوی کی طرف اشارہ ہے۔
اس کے یہاں اندراج کا یہی مقصد ہے۔
سورۃ شریفہ میں اشارہ تھا کہ ہر کمالے راز والے۔
ہر زوالے را کمالے۔
اس حدیث کے ذیل مولانا وحید الزماں کی تقریر دل پذیر یہ ہے کہ عمر ؓ کا عمل اس پر تھا بزرگی عقل است نہ بہ سال۔
ابن عباس ؓ اس وقت کے بڑے عالم تھے اور عالم گو جوان ہو مگر علم کی فضیلت سے وہ بوڑھوں کے برابر بلکہ ان سے بھی افضل سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے پیشوا خلفائے راشدین اور دوسرے شاہان اسلام نے علم کی ایسی قدر دانی کی ہے جب مسلمان علم حاصل کرنے میں کوشش کرتے تھے مگر افسوس کہ ہمارے زمانہ کے مسلمان بادشاہ ایسے نالائق ہیں جن کے پاس ایک بھی عالم فاضل یا حکیم فیلسوف نہیں ہوتا نہ ان کو دینی علوم کی قدر ہے نہ دنیاوی علوم کی بلکہ سچ پوچھو تو علم ولیاقت کے دشمن ہیں۔
ان کے ملک میں کوئی شاذونادر دین کا عالم پیدا ہو گیا تو اس کو ستانے بے عزت کرنے اور نکالنے کے فکر میں رہتے ہیں۔
لا حول ولا قوة الا باللہ اگر یہی لیل ونہار رہے تو ایسے بادشاہوں کی حکومت کو بھی چراغ سحری سمجھنا چاہیے۔
(وحیدی)
یہ پرانی باتیں ہیں اب تو گیا دور سرمایہ داری گیا۔
دکھا کر تماشہ مداری گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4294   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4294  
4294. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمیا کہ حضرت عمر ؓ مجھے شیوخ بدر کے ساتھ بٹھاتے تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا: آپ اس بچے کو ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں جبکہ اس جیسے تو ہمارے اپنے بیٹے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی علمی فضیلت تم لوگ بھی جانتے ہو، چنانچہ ایک دن حضرت عمر ؓ نے شیوخِ بدر کو بلایا اور ان کے ساتھ مجھے بھی آنے کی دعوت دی۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے اس لیے بلایا گیا تاکہ انہیں میری برتری دکھائیں۔ انہوں نے فرمایا: تم لوگ اس سورت کے متعلق کیا جانتے ہو؟ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣﴾ ) حتی کہ انہوں نے پوری سورت پڑھی۔ ان میں سے کسی نے کہا: نصرت و فتح کے بعد ہمیں اللہ کی حمد و ثنا اور اس سے معافی مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کچھ نے کہا: ہمیں معلوم نہیں۔ کچھ تو بالکل خاموش رہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4294]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابن عباس ؓ اگرچہ چھوٹی عمر کے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں کے نتیجے میں صاحب بصیرت اور اہل علم تھے، اس لیے حضرت عمر ؓ نے ان کو اپنی شوریٰ کا ممبربنایا اور دوسروں پر انھیں ترجیح دیتے تھے، پھربھری مجلس میں ان کی علمی برتری کو ثابت کیا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معارف قرآن سمجھے کے لیے صرف عربی میں مہارت ہوناکافی نہیں اور نہ ہر ایک کی سمجھ ہی معتبر ہے بلکہ اس کے لیے علوم متد اولہ میں مہارت کے ساتھ ایسےفہم کی بھی ضرورت ہے جس سے استنباط مسائل ہوسکے۔

شیوخ بدرسے مراد وہ بزرگ حضرات ہیں جو غزوہ بدر میں شرکت کرچکے تھے۔

سوال کرنے والے نے حضرت ابن عباس ؓ پر حسد نہیں کیا تھا بلکہ اس لیے کہا تھا کہ ہمارے بیٹے بھی ان جیسےہوں۔
اس حدیث میں حضرت ابن عباس ؓ کی علمی برتری کوثابت کیا ہے۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے پیش کیاہے کہ اس میں فتح مکہ کا ذکر ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4294