مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المرضٰي و الطب -- مریضوں اور ان کے علاج کا بیان

بیمار کی تیمارداری اور شفا کی دعا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 679
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنِي مِسْعَرٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ قَالَ: ذَهَبَتْ بِي أُمِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَنَعَتْ مُرَيْقَةً، فَأَصَابَتْ بَدَنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلًا لَا أَدْرِي مَا هُوَ، فَلَمَّا كَانَ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ قَالَتْ أُمِّي: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ)).
محمد بن حاطب نے بیان کیا: میری والدہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر گئیں، انہوں نے شوربہ بنایا تھا اور وہ میرے بدن پر گر گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا، لیکن مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو میری والدہ نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی تھی: لوگوں کے رب! بیماری دور فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، شفا عطا فرما، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب المرضي، باب دعاء العائد للمريض، رقم: 5675. مسلم، كتاب السلام، باب استحباب رقيه الخ، رقم: 2191. سنن ابوداود، رقم: 3890. سنن ترمذي، رقم: 973. سنن ابن ماجه، رقم: 3520.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 679  
محمد بن حاطب نے بیان کیا: میری والدہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر گئیں، انہوں نے شوربہ بنایا تھا اور وہ میرے بدن پر گر گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا، لیکن مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو میری والدہ نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی تھی: لوگوں کے رب! بیماری دور فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے شفا عطا فرما، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:679]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کوئی بیمار ہوجائے یا کسی کا جسم جل جائے یا کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجائے تو ایسے آدمی کی تیمار داری کرنی چاہیے اور اس کے لیے شفا کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔ کیونکہ وہ ہی شفا دیتا اور تکلیف دور کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ (یونس:107) .... اور اگر اللہ تعالیٰ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس تکلیف کا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم سے بھلائی کرنا چاہے۔ تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ مریض آدمی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کرے اور سات مرتبہ یہ کلمات کہے تو اسے عافیت دی جاتی ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کی موت کا وقت آپہنچا ہو۔
((أَسْاَلُ اللّٰهَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَّشْفِیكَ۔)) (صحیح ترمذی، رقم: 1698)
میں اللہ سے سوال کرتا ہوں جو عظمت والا ہے عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفا دے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 679