صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
51. بَابُ مَنْزِلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ:
باب: فتح مکہ کے دن قیام نبوی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4295
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ: أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْغَدَ يَوْمَ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنْ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرًا، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ"، فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَاذَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ، إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا، وَلَا فَارًّا بِدَمٍ، وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: الْخَرْبَةُ: الْبَلِيَّةُ.
ہم سے سعید بن شرحبیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے مقبری نے کہ ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے (مدینہ کے امیر) عمرو بن سعید سے کہا جب کہ عمرو بن سعید (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف) مکہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے کہ اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی۔ اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے تھے تو میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا ‘ بلاشبہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والا شہر قرار دیا ہے کسی انسان نے اسے اپنے طرف سے حرمت والا قرار نہیں دیا۔ اس لیے کسی شخص کے لیے بھی جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ‘ جائز نہیں کہ اس میں کسی کا خون بہائے اور کوئی اس سر زمیں کا کوئی درخت کاٹے اور اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (فتح مکہ کے موقع پر) جنگ سے اپنے لیے بھی رخصت نکالے تو تم اس سے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کو (تھوڑی دیر کے لیے) اس کی اجازت دی تھی۔ ہمارے لیے بالکل اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی اس کی اجازت دن کے تھوڑے سے حصے کے لیے ملی تھی اور آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل یہ شہر حرمت والا تھا۔ پس جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ (ان کو میرا کلام) پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ابوشریح سے پوچھا گیا کہ عمرو بن سعید نے آپ کو پھر جواب کیا دیا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس نے کہا کہ میں یہ مسائل تم سے زیادہ جانتا ہوں ‘ حرم کسی گنہگار کو پناہ نہیں دیتا ‘ نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے ‘ مفسد کو بھی پناہ نہیں دیتا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 104  
´مکہ میں خون ریزی جائز نہیں`
«. . . ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 104]

تشریح:
عمرو بن سعید یزید کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے، انھوں نے ابوشریح سے حدیث نبوی سن کر تاویل سے کام لیا اور صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی فسادی قرار دے کر مکہ شریف پر فوج کشی کا جواز نکالا حالانکہ ان کا خیال بالکل غلط تھا۔ حضرت ابن زبیر نہ باغی تھے نہ فسادی تھے۔ نص کے مقابلہ پر رائے و قیاس و تاویلات فاسدہ سے کام لینے والوں نے ہمیشہ اسی طرح فسادات برپا کر کے اہل حق کو ستایا ہے۔ حضرت ابوشریح کا نام خویلد بن عمرو بن صخر ہے اور بخاری شریف میں ان سے صرف تین احادیث مروی ہیں۔ 68ھ میں آپ نے انتقال فرمایا رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ۔

چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے حرم مکہ شریف کو اپنے لیے جائے پناہ بنایاتھا۔ اسی لیے یزید نے عمرو بن سعید کو مکہ پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ اور حرم مکہ کی سخت بے حرمتی کی گئی  انا للہ وانا الیہ راجعون۔  حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ آج کل بھی اہل بدعت حدیث نبوی کو ایسے بہانے نکال کر رد کر دیتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 104   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4295  
4295. حضرت ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جب وہ مکہ میں لشکر بھیج رہا تھا: اے امیر! اگر مجھے اجازت ہو تو میں تم سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے روز فرمائی تھی۔ میرے کانوں نے وہ سنا، میرے دل نے اسے محفوظ کیا اور میری آنکھوں نے آپ ﷺ کو دیکھا جب آپ گفتگو کر رہے تھے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی، پھر فرمیا: اللہ تعالٰی نے مکہ کو حرام ٹھہرایا ہے، لوگوں نے اسے حرام قرار نہیں دیا۔ اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین رکھنے والے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس (مکے) میں خونریزی کرے اور اس کے کسی درخت ہی کو کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے قتال و جنگ سے رخصت ثابت کرنا چاہے تو اسے کہہ دو: بےشک اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو اجازت دی تھی تمہیں اجازت نہیں دی۔ اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں اس کی اجازت تھی، پھر آج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4295]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی۔
اس لیے یزید نے ان کو زیر کرنے کے لیے گورنر مدینہ عمروبن سعید کو مامور کیا تھا جس پر ابو شریح نے ان کو یہ حدیث سنائی اور مکہ پر حملہ آور ہونے سے روکا مگر عمرو بن سعید طاقت کے نشہ میں چور تھا۔
اس نے حدیث نبوی کو نہیں سنا اور مکہ پر چڑھائی کردی اور ساتھ ہی یہ بہانے بنائے جو یہاں مذکور ہیں۔
اس طرح تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بد نامی کو اختیار کیا اور حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کے خون نا حق کا بوجھ اپنی گردن پر رکھا اور حدیث میں فتح مکہ وحرمت مکہ پر اشارہ ہے یہی مقصود باب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ اسدی قریشی ہیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نواسے ہیں۔
مدینہ میں مہاجرین میں یہ پہلے بچے ہیں جو سنہ 1 ھ میں پیدا ہوئے۔
محترم نانا حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کے کانوں میں اذان کہی انکی والدہ حضرت اسماءبنت ابوبکر صدیق ؓ ہیں۔
مقام قبا میں جناب آنحضرت ﷺ نے چھو ہارہ چبا کر اپنے لعاب دہن کے ساتھ ان کے منہ میں ڈالا اور برکت کی دعا کی۔
بہت ہی بار عب صاف چہرے والے موٹے تازے بڑے قوی بہادر تھے۔
ان کی دادی حضرت صفیہ ؓ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں ان کی خالہ حضرت عائشہ ؓ تھیں۔
آٹھ سال کی عمر میں حضور ﷺ سے بیعت کی اور انہوں نے آٹھ حج کئے اور حجاج بن یوسف نے انکو مکہ میں منگل کے دن 17۔
جمادی الثانی سنہ73 ھ کو شہید کر ڈالا۔
ایسی ہی ظالمانہ حرکتوں سے عذاب الہی میں گرفتار ہو کر حجاج بن یوسف بڑی ذلت کی موت مرا۔
اس نے جس بزرگ کو آخر میں ظلم سے قتل کیا وہ حضرت سعید بن جبیر ہیں۔
جب بھی حجاج بن یوسف سوتا حضرت سعید خواب میں آکر اس کا پاؤں پکڑ کر ہلا د یتے اور اپنے خون نا حق کی یاد دلاتے۔
﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ﴾ (آل عمران: 13)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4295   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 809  
´مکہ کی حرمت کا بیان۔`
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 809]
اردو حاشہ:
1؎: (حج کے احکام و مناسک کی وضاحت ہے) حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت 5ھ؁ یا 6ھ؁میں ہوئی اور بعض نے 9ھ؁ یا 10ھ؁کہا ہے،
زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔

2؎:
عمرو بن سعید:
یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 809   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4295  
4295. حضرت ابو شریح عدوی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا جب وہ مکہ میں لشکر بھیج رہا تھا: اے امیر! اگر مجھے اجازت ہو تو میں تم سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے روز فرمائی تھی۔ میرے کانوں نے وہ سنا، میرے دل نے اسے محفوظ کیا اور میری آنکھوں نے آپ ﷺ کو دیکھا جب آپ گفتگو کر رہے تھے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی، پھر فرمیا: اللہ تعالٰی نے مکہ کو حرام ٹھہرایا ہے، لوگوں نے اسے حرام قرار نہیں دیا۔ اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین رکھنے والے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس (مکے) میں خونریزی کرے اور اس کے کسی درخت ہی کو کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے قتال و جنگ سے رخصت ثابت کرنا چاہے تو اسے کہہ دو: بےشک اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو اجازت دی تھی تمہیں اجازت نہیں دی۔ اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں اس کی اجازت تھی، پھر آج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4295]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے یزید بن معاویہ ؓ کی بیعت نہیں کی تھی، بلکہ حجاز کے علاقے میں خود خلافت کا دعویٰ کیا اور لوگوں سے بیعت لی۔
یزید نے انھیں زیر کرنے کے لیے گورنر مدینہ عمرو بن سعید کو مامورکیا، جسے حضرت ابوشریح ؓ نے حدیث سنائی اور مکہ پر فوج کشی سے روکا مگرعمرو بن سعید اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا، اس لیے اس نے مکے پر چڑھائی کردی، حالانکہ اس نے جن بہانوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک بھی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ میں نہ تھا،انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔
اس نے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بدنامی کو اختیار کیا اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خون ناحق سے اپنے ہاتھوں کو رنگا۔

چونکہ اس حدیث میں فتح مکہ کے حوالے سے حرمت کو بیان کیا گیا تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4295