مسند اسحاق بن راهويه
كتاب البر و الصلة -- نیکی اور صلہ رحمی کا بیان

بیواؤں، مسکینوں کی سرپرستی اور یتیموں کی کفالت کا بیان
حدیث نمبر: 781
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ هَكَذَا، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى)).

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الطلاق، باب اللعان، رقم: 5304. مسلم، كتاب الزهد، باب لا تدخلوا مساكن الزين الخ، رقم: 2982. سنن ترمذي، رقم: 1969. سنن نسائي، رقم: 2577. سنن ابن ماجه، رقم: 2140.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 781  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیواؤں اور مسکینوں کی سرپرستی کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا (جنت میں) اس طرح ہوں گے۔ آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:781]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا معاشرے کے ضرورت مند، نادار بیوہ و یتیم اور معذور لوگوں کی کفالت اور خبر گیری کرنا بہت عظیم عمل ہے، اسلام نے اس کو جہاد فی سبیل اللہ جیسے عظیم عمل کے برابر کہا ہے، اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس مسلمانوں نے ان عظیم کاموں کو چھوڑ دیا اور عیسائیوں، مرزائیوں نے نادار لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا یا اور آج انہیں اپنے اپنے دین میں داخل کر رہے ہیں۔
(1).... ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: بیواؤں اور مسکینوں (کی خدمت) کے لیے کمانے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی طرح ہے اور اس شخص کی طرح ہے جو تمام دن روزے رکھے اور ساری رات نمازیں پڑھے۔ (سلسلة الصحیحة، رقم: 2881۔ ادب المفرد: 131)
(2).... مذکورہ حدیث سے یتیم کی کفالت کرنے والے کی بھی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ جیسا کہ یہ دونوں انگلیاں قریب قریب ہیں، ایسے ہی میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں قریب قریب ہوں گے۔ لیکن درجے میں فرق ہوگا جس کا اظہار خود انگلیوں کے چھوٹے اور بڑے ہونے سے ہو رہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباري میں لکھتے ہیں کہ اس میں دونوں درجوں کے فرق کی طرف اشارہ ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 781