مسند اسحاق بن راهويه
كتاب البر و الصلة -- نیکی اور صلہ رحمی کا بیان

عاجزی و انکساری اختیار کرنے کی ترغیب
حدیث نمبر: 790
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا وَلَا يَبْغِي بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ)).
اسی سند (سابقہ) سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ہر رحیم شخص پر اپنی رحمت کرتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے ہر شخص اپنی جان پر رحم کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی خصوصی طور پر اپنی ذات پر رحم نہیں کرتا حتیٰ کہ وہ لوگوں پر رحم کرے۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الجنة وصفة، باب الصفات التى يعرف بها الخ، رقم: 2865. سنن ابوداود، كتاب الادب، باب فى التواضع، رقم: 4895. صحيح ترغيب وترهيب، رقم: 2890.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 790  
اسی (سابقہ ۴۰۳) اسناد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو، تم ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:790]
فوائد:
(1) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا عاجزی وانکساری اختیار کرنی چاہیے، آپس میں رحمدلی، محبت اور الفت سے پیش آنا چاہیے۔
اگر اللہ ذوالجلال نے کسی کو مال و دولت سے نوازا ہے تو اس کو اللہ ذوالجلال کا شکر ادا کرنا چاہیے، نہ کہ اس کی وجہ سے تکبر غرور کرتے ہوئے لوگوں کو حقیر جانے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ ذوالجلال نے سب سے زیادہ عظمت عطا فرمائی، لیکن اس کے باوجود اللہ ذوالجلال نے فرمایا: ﴿وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الشعراء:215) .... (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے پیروکار مومنوں سے نرمی سے پیش آؤ۔
(2).... مذکورہ بالاحدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک دوسرے پر زیادتی کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلٰی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُونَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ اُوْلٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (الشوریٰ: 42).... بے شک ملامت کے لائق وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اگر کوئی آدمی کسی پر ظلم کرتا ہے تو اس سے بدلہ لینا جائز ہے، بشرطیکہ مظلوم ظالم پر زیادتی نہ کرے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: ﴿وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَاُوْلٰٓئِكَ مَا عَلَیْهِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ﴾ (الشوریٰ: 41).... جو شخص ظلم کیے جانے کے بعد بدلہ لے لے، تو ان لوگوں پر کوئی گرفت نہیں۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 790