صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
54. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4308
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُودٍ: انْطَلَقْتُ بِأَبِي مَعْبَدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، قَالَ:" مَضَتِ الْهِجْرَةُ لِأَهْلِهَا أُبَايِعُهُ عَلَى: الْإِسْلَامِ، وَالْجِهَادِ"، فَلَقِيتُ أَبَا مَعْبَدٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ مُجَاشِعٌ، وَقَالَ خَالِدٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ مُجَاشِعٍ: أَنَّهُ جَاءَ بِأَخِيهِ مُجَالِدٍ.
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے اور ان سے مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ میں اپنے بھائی (ابومعبد رضی اللہ عنہ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرانے کے لیے لے گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کا ثواب تو ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ختم ہو چکا۔ البتہ میں اس سے اسلام اور جہاد پر بیعت لیتا ہوں۔ ابوعثمان نے کہا کہ پھر میں نے ابومعبد رضی اللہ عنہ سے مل کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع رضی اللہ عنہ نے ٹھیک بیان کیا اور خالد حذاء نے بھی ابوعثمان سے بیان کیا، ان سے مجاشع رضی اللہ عنہ نے کہ وہ اپنے بھائی مجالد رضی اللہ عنہ کو لے کر آئے تھے، (پھر حدیث کو آخر تک بیان کیا، اس کو اسماعیل نے وصل کیا ہے)۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4308  
4308. حضرت مجاشع بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں ابو معبد کو لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ ہجرت پر اس سے بیعت لیں تو آپ نے فرمایا: ہجرت تو اہل ہجرت کے ساتھ گزر چکی ہے۔ اب میں اسلام اور جہاد پر بیعت لوں گا۔ (راوی حدیث کہتے ہیں:) پھر میں ابو معبد سے ملا اور اس سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع نے سچ کہا ہے۔ خالد نے ابو عثمان کے واسطے سے مجاشع سے روایت کی کہ وہ اپنے بھائی مجالد کو لے کر آئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4308]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں اس واقعے کی طرف اشراہ ہے جو فتح مکہ کے بعد پیش آیا۔

رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب ہے کہ ہجرت تو مہاجرین پر ختم ہوگئی ہے اور جس ہجرت کی فضیلت تھی وہ فتح مکہ سے پہلے تھی اور جس کی قسمت میں یہ فضیلت تھی اسے حاصل ہو گئی اب صرف ان پر بیعت لی جائے گی۔
جو اسلام میں اہم ہیں وہ اسلام اور ایمان پر قائم رہنا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔

یہ حکم مدنی ہجرت کے بارے میں ہے۔
اگر اہل اسلام کے لیے کسی بھی علاقے میں مکہ جیسے حالات پیدا ہو جائیں تو دارالاسلام کی طرف وہ آج بھی ہجرت کر سکتے ہیں۔
امید ہے کہ اللہ کے ہاں انھیں ہجرت کر سکتے ہیں۔
امید ہے کہ اللہ کے ہاں انھیں ہجرت کا ثواب ملے گا، مگر نیت کا اخلاص انتہائی ضروری ہے۔

ایک روایت میں وضاحت ہے کہ مجاشع بن مسعود ؓ اپنے بھائی مجا لدبن مسعود ؓ کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یہ مجالد آپ سے ہجرت پر بیعت کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا:
"فتح مکہ کے بعد اب ہجرت کا وقت ختم ہو چکا ہے لیکن اسلام پر قائم رہنے کی اس سے بیعت کرتا ہوں۔
"(صحیح البخاری، الجھاد والسیر، حدیث: 7830۔
)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4308