مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الدعوات -- دعاؤں کے فضائل و مسائل

اسم اعظم کا بیان
حدیث نمبر: 835
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ مِغْوَلٍ، يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ: خَرَجَ بُرَيْدَةُ عِشَاءً فَلَقِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِيَدِهِ، فَأَدْخَلَهُ الْمَسْجِدَ وَإِذَا بِرَجُلٍ يَدْعُو وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ حَيُّ أَنْتَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَكَ كُفُوًا أَحَدٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى)).
عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا: بریدہ رضی اللہ عنہ عشاء کے وقت باہر نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں مسجد میں داخل کر دیا، وہاں ایک آدمی ان الفاظ کے ساتھ دعا کر رہا تھا: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اللہ واحد یکتا ہے، بےنیاز ہے، جس کی نہ اولاد ہے نہ والدین اور نہ ہی کوئی اس کی برابری کرنے والا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے اللہ کے اسم اعظم کے ساتھ دعا کی ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ سوال کیا جائے تو وہ عطا فرماتا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الصلاة، باب الدعاء، رقم: 1493. سنن ترمذي، ابواب الدعوات، باب جامع الدعوات الخ، رقم: 3435. سنن ابن ماجه، رقم: 3857. سنن نسائي، رقم: 2493. قال الشيخ الالباني: صحيح.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 835  
عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا: بریدہ رضی اللہ عنہا عشاء کے وقت باہر نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں مسجد میں داخل کر دیا، وہاں ایک آدمی ان الفاظ کے ساتھ دعا کر رہا تھا: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اللہ واحد یکتا ہے، بے نیاز ہے، جس کی اولاد ہے نہ والدین اور نہ ہی کوئی اس کی برابری کرنے والا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے اللہ کے اسم اعظم کے ساتھ دعا کی ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ سو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:835]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا اسم اعظم کے ساتھ دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے۔ بشرطیکہ قبولیت دعا کے لیے کوئی چیز مانع نہ ہو، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ حرام کھانے والے اور خالی دل سے دعا کرنے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف:180) .... اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں، سو ان ناموں سے اللہ کو پکارا کرو۔
مذکورہ بالا حدیث میں جو الفاظ آئے ہیں، وہ سورہ اخلاص میں ذکر کردہ صفات ہیں جن میں توحید کا جامع بیان ہے:
(1) اِنَّكَ اَنْتَ اللّٰهُ (2) اَلْاَحَدُ (3) اَلصَّمَدُ (4) لَمْ یَلِدْ (5) وَلَمْ یُوْلَدْ (6) وَلَمْ یَکُنْ لَّهٗ کُفُوًّا اَحَدٌ۔
سورہ اخلاص کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ قرآن کے تہائی کے برابر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسم اعظم کے متعلق سند کے لحاظ سے یہ حدیث سب سے راجح ہے۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ہمیں اپنی دعائیں اس عظیم الشان کلمہ کے ساتھ آراستہ کرنی چاہئیں، تاکہ انہیں قبولیت کا شرف حاصل ہوجائے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 835