مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الفتن -- فتنوں کا بیان

قربِ قیامت کے آثار
حدیث نمبر: 857
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ فِيهَا أَقْوَامٌ دِينَهُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا قَلِيلٍ)).
اسی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت سے پہلے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے ہوں گے، ان فتنوں میں آدمی صبح کو مومن ہو گا تو شام کو کافر، اگر شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر، ان میں لوگ دنیا کے قلیل مال و متاع کے عوض اپنا دین بیچ دیں گے۔

تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الايمان، باب الحث على المبادرة بالاعمال قبل تظاهر الفتن، رقم: 118. سنن ترمذي، رقم: 2195، 2197.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 857  
اسی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت سے پہلے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے ہوں گے، ان فتنوں میں آدمی صبح کو مومن ہوگا تو شام کو کافر، اگر شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر، ان میں لوگ دنیا کے قلیل مال ومتاع کے عوض اپنا دین بیچ دیں گے۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:857]
فوائد:
مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صبح کو ایمان سے متصف اور اعمال صالحہ سے مزین، لیکن شام کو کفر کی دلدل میں پھنسا ہوا اور کفریہ اعمال کرتا ہوا نظر آئے گا۔ اور یہ بھی معنی کیا گیا ہے کہ صبح کو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھے گا لیکن شام کو ان کو حلال تصور کرے گا۔
مطلب یہ کہ حالات ایسا رخ اختیار کریں گے کہ انسان کو اپنے بدل جانے کی کوئی سمجھ نہیں آئے گی وہ لاشعور سا لگ رہا ہوگا۔ لہٰذا کثرت سے یہ دعا پڑھتے رہنا چاہیے: ((اَللّٰهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا اِلَی طَاعَتِكَ)).... اے اللہ! دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیردے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 857