صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
55. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ} إِلَى قَوْلِهِ: {غَفُورٌ رَحِيمٌ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم‏» تک۔
حدیث نمبر: 4317
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، سَمِعَ الْبَرَاءَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ قَيْسٍ:" أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟" فَقَالَ:" لَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَفِرَّ، كَانَتْ هَوَازِنُ رُمَاةً، وَإِنَّا لَمَّا حَمَلْنَا عَلَيْهِمُ انْكَشَفُوا فَأَكْبَبْنَا عَلَى الْغَنَائِمِ، فَاسْتُقْبِلْنَا بِالسِّهَامِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ، وَإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ آخِذٌ بِزِمَامِهَا وَهُوَ يَقُولُ: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ"، قَالَ إِسْرَائِيلُ وَزُهَيْرٌ: نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَغْلَتِهِ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، انہوں نے براء رضی اللہ عنہ سے سنا اور ان سے قبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھا کہ کیا تم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ حنین میں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے؟ انہوں نے کہا: لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے۔ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیرانداز تھے، جب ان پر ہم نے حملہ کیا تو وہ پسپا ہو گئے پھر ہم لوگ مال غنیمت میں لگ گئے۔ آخر ہمیں ان کے تیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے خود دیکھا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے «أنا النبي لا كذب‏» میں نبی ہوں، اس میں جھوٹ نہیں۔ اسرائیل اور زہیر نے بیان کیا کہ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اتر گئے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1688  
´جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے فرار ہو گئے تھے؟ کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۳۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1688]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے۔

2؎:
ابوسفیان بن حارث نبی اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں،
مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے،
نبی اکرمﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے،
اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرمﷺ سے راستہ ہی میں جاملے،
اور اسلام قبول کرلیا،
پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔

3؎:
اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد وارادہ نکلے تھے،
اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں،
اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں،
عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہورشخصیت تھی،
یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی،
چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب آپﷺ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: (أيكم ابن عبد المطلب؟)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1688   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4317  
4317. حضرت براء ؓ ہی سے روایت ہے کہ ان سے قبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھا: کیا تم لوگ غزوہ حنین میں رسول اللہ ﷺ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے۔ دراصل قبیلہ ہوازن کے لوگ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ پسپا ہو گئے۔ ہم لوگ مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے۔ آخر کار ہمیں ان کے تیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے بچشم خود دیکھا کہ نبی ﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان ؓ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ فر رہے تھے: میں نبی ہوں اس میں ذرا بھی جھوٹ نہیں۔ اسرائیل اور زہیر راوی نے بیان کیا کہ نبی ﷺ اپنے خچر سے اتر پڑے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4317]
حدیث حاشیہ:
میدان جنگ میں آنحضرت اثابت قدم رہے اور چا رآدمی آپ کے ساتھ جمے رہے۔
تین بنو ہاشم کے ایک حضرت عباس ؓ آپ کے سامنے تھے اور ابو سفیان ؓ آپ کے خچر کی باگ تھامے ہوئے تھے، عبد اللہ بن مسعود ؓ آپ کے دوسری طرف تھے۔
ترمذی کی روایت میں ہے کہ سو آدمی بھی آپ کے ساتھ نہ رہے اورامام احمد اور حاکم کی روایت میں ہے، ابن مسعود ؓ سے کہ سب لوگ بھاگ نکلے صرف اسی (80)
آدمی مہاجرین اور انصار میں سے آپ کے ساتھ رہ گئے۔
مسلم کی روایت میں ہے کہ کافروں نے آپ کو گھیر لیاآپ خچر سے اتر پڑے پھر خاک کی ایک مٹھی لی اور کافروں کے منہ پر ماری، کوئی کافر باقی نہ رہا جس کی آنکھ میں مٹی نہ گھسی ہو۔
آخر میں کافر ہار کر سب بھاگ گئے۔
آپ نے فرمایا''شاھت الوجوہ'' یعنی ان کے منہ کالے ہوں۔
یہ بھی آنحضرت اکے بڑے معجزات میں سے ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4317   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4317  
4317. حضرت براء ؓ ہی سے روایت ہے کہ ان سے قبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھا: کیا تم لوگ غزوہ حنین میں رسول اللہ ﷺ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے۔ دراصل قبیلہ ہوازن کے لوگ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ پسپا ہو گئے۔ ہم لوگ مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے۔ آخر کار ہمیں ان کے تیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے بچشم خود دیکھا کہ نبی ﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان ؓ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ فر رہے تھے: میں نبی ہوں اس میں ذرا بھی جھوٹ نہیں۔ اسرائیل اور زہیر راوی نے بیان کیا کہ نبی ﷺ اپنے خچر سے اتر پڑے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4317]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ جب مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا خچر کفار کی طرف دوڑایا۔
حضرت عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس کی لگام زور سے پکڑرکھی تھی تاکہ وہ تیزی سے کفار کی صفوں میں گھسنے نہ پائے اور ابو سفیان ؓ نے اس کی رکاب تھام رکھی تھی۔
(صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 4612۔
(1775)

یہ روایت صحیح بخاری کی روایت کے منافی نہیں کیونکہ ابو سفیان اور حضرت عباس ؓ نے باری باری لگام تھام رکھی تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے خچر سے اترے، دعا کی اور اللہ سے فتح و نصرت طلب کی۔
آپ کی دعا تھی۔
"اے اللہ!میں تیری مددکا طلب گار ہوں۔
" آخر کار اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح عطا فرمائی اور کفار بھاگ گئے۔
(صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 4616۔
(1776)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4317