مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الزهد -- زہد کے فضائل

مال و دولت باعثِ ہلاکت ہے
حدیث نمبر: 918
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، نا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ كُمَيْلِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَخْلٍ مِنْ نَخْلِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ((هَلَكَ الْمُكْثِرُونَ، إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْأَسْفَلُونَ إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا))، يَعْنِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَخَلْفَهُ، وَعَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ، ثُمَّ ذَكَرَ مِثْلَهُ إِلَى آخِرِهِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں مدینہ کے کھجوروں کے باغ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں چل رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوہریرہ! زیادہ مال والے ہلاک ہوں گے، بے شک زیادہ مال والے زیادہ نیچے ہوں گے، مگر وہ جس نے اسی طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کیا یعنی! اپنے آگے پیچھے، اپنی دائیں جانب اور بائیں جانب، پھر حدیث سابق (رقم: 266، 265) کے مطابق آخر تک روایت کیا۔

تخریج الحدیث: «انظر: 265.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 918  
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں مدینہ کے کھجوروں کے باغ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں چل رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوہریرہ! زیادہ مال والے ہلاک ہوں گے، بے شک زیادہ مال والے زیادہ نیچے ہوں گے، مگر وہ جس نے اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کیا: یعنی! اپنے آگے پیچھے، اپنی دائیں جانب اور بائیں جانب، پھر حدیث سابق (رقم: ۲۶۵، ۲۶۶) کے مطابق آخر تک روایت کیا۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:918]
فوائد:
(1) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا مال و دولت باعث ہلاکت ہے، الّا یہ کہ اس کا حق ادا کردیا جائے، کیونکہ ایسا مال خرچ کرنے کی وجہ سے نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَیْلٌ لِّکُلِّ هُمَزَۃٍ لُّمَزَةٍ() نِ الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ() یَحْسَبُ اَنَّ مَالَهُ اَخْلَدَہُ﴾ (الهمزۃ: 1۔3) .... ہلاکت ہے ہر طعنہ دینے والے، بہت عیب لگانے والے کے لیے جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ رہے گا۔
(2).... مذکورہ حدیث سے لاحول ولا قوة الا بالله کی فضیلت کا بھی اثبات ہوتا ہے۔
(اس کے متعلق دیکھئے حدیث وشرح: 251)
(3).... معلوم ہوا اللہ ذوالجلال کا لوگوں پر یہ حق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، کیونکہ اللہ ذوالجلال نے انسانوں اور جنوں کو پیدا ہی اپنی عبادت کے لیے کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنْسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56).... میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
عبادت کا مطلب کیا ہے؟ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا: اصل میں عبادت عاجزی اور جھک جانے کا نام ہے، اور شریعت کے افعال کو عبادت اس لیے کہتے ہیں کہ مکلفین افعال کو اللہ کے سامنے عاجزی وانکساری کرتے ہوئے سرانجام دیتے ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ جن کاموں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو بجالایا جائے اور جن سے منع کیا ان سے رک جایا جائے اور یہی دین اسلام کی حقیقت ہے، کیونکہ اسلام کا معنی اللہ کا اتنا فرمانبردار ہونا ہے کہ وہ اطاعت وعاجزی میں انتہا کر دے۔ (فتح المجید: ص 14)
مذکورہ بالا حدیث سے توحید کی فضیلت کا بھی اثبات ہوتا ہے گویا جو اللہ ذوالجلال کے ساتھ شرک نہیں کرتا وہ عذاب الٰہی سے بچ جائے گا، لیکن مشرکین کے متعلق اللہ ذوالجلال فرماتے ہیں: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾ (النسآء: 48).... بے شک اللہ تعالیٰ مشرک کو کبھی معاف نہیں کریں گے اور اس کے علاوہ جسے چاہیں گے معاف کر دیں گے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 918