مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الزهد -- زہد کے فضائل

حلال مال میں برکت کا بیان
حدیث نمبر: 938
أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ سَنُوطَا قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ مُحَمَّدٍ , وَكَانَتْ تَحْتَ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، تَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: حَنْظَلَةُ فَقَالَتْ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى بِنْتِ حَمْزَةَ، فَذَكَرَتْ لَهُ الْأَمَارَاتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ الدُّنْيَا خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَ بِحَقِّهَا بَارَكَ اللَّهُ لَهُ فِيهَا، وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِي مَالِ اللَّهِ فِيمَا اشْتَهَتْ نَفْسُهُ لَهُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)).
عبید سنوطا نے بیان کیا، میں ام محمد (خولہ بنت قیس رضی اللہ عنہا) کے پاس گیا، وہ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں، ان کے بعد حنظلہ نامی شخص نے ان سے شادی کر لی تھی، انہوں (خولہ) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بنت حمزہ کے پاس آئے تو اس نے آپ سے امارات کا ذکر کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا سرسبز و شاداب ہے، پس جس نے اس کے حق سے لیا تو اللہ اس شخص کے لیے اس میں برکت فرمائے گا، بسا اوقات اپنے نفس کی خواہش پر اللہ کے مال میں مشغول ہونے والے شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ ہو گی۔

تخریج الحدیث: «سنن ترمذي، ابواب الزهد، باب اخذ المال، رقم: 2374 قال الباني: صحيح. مسند احمد: 364/6. صحيح الجامع الصغير، رقم: 3410.»
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 938  
عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں، ان کے بعد حنظلہ نامی شخص نے ان سے شادی کر لی تھی، انہوں (خولہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بنت حمزہ کے پاس آئے تو اس نے آپ سے امارات کا ذکر کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا سر سبز وشاداب ہے، پس جس نے اس کے حق سے لیا تو اللہ اس شخص کے لیے اس میں برکت فرمائے گا، بسا اوقات اپنے نفس کی خواہش پر اللہ کے مال میں مشغول ہونے والے شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ ہوگی۔
[مسند اسحاق بن راهويه/حدیث:938]
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا دنیا کا مال اچھا ا ور دل کوپیارا لگتا ہے، اگر اس مال کو حلال طریقے سے کمایا جائے تو اس میں برکت بھی ہوتی ہے۔ لیکن حرام مال میں برکت نہیں ہوتی، اگرچہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ ذوالجلال نے بھی لوگوں کو حلال کھانے کا حکم دیا ہے: ﴿یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِیْ الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا﴾ (البقرۃ: 168) .... لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں، انھیں کھاؤ۔
اللہ ذوالجلال کے مال میں ناجائز گھسنے والے: .... بخاری شریف کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ رِجَالًا یَتَخَوَّضُوْنَ فِی مَالِ اللّٰهِ بِغَیْرِ حَقٍّ فَلَهُمُ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔)) (بخاري، رقم: 3118) .... کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے مال کو بے جا اڑاتے ہیں انہیں قیامت کے دن آگ ملے گی۔
معلوم ہوا مال غنیمت یا راہِ الٰہی کے مال کو بے دریغ ناحق خرچ کرنا ممنوع ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 938