الادب المفرد
كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ -- كتاب الوالدين
19. بَابُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا
والدین کے ساتھ ان کی موت کے بعد حسن سلوک کرنا
حدیث نمبر: 37
حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سَلاَّمُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ غَالِبٍ قَالَ‏:‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ‏:‏ كُنَّا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ لَيْلَةً، فَقَالَ‏:‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِي هُرَيْرَةَ، وَلِأُمِّي، وَلِمَنِ اسْتَغْفَرَ لَهُمَا قَالَ لِي مُحَمَّدٌ‏:‏ فَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُ لَهُمَا حَتَّى نَدْخُلَ فِي دَعْوَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ‏.‏
محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک رات سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، انہوں نے (یہ دعا) فرمائی: اے اللہ! ابوہریرہ اور اس کی والدہ کو معاف فرما دے، اور ان دونوں کے لیے استغفار کرنے والے سے بھی درگزر فرما۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ان دونوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں تاکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا کے مستحق قرار پائیں۔

تخریج الحدیث: «صحيح:» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحیح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 37  
1
فوائد ومسائل:
(۱)دعا کے آداب میں سے ہے کہ انسان پہلے اپنے لیے اور پھر دوسروں کے لیے دعا کرے، البتہ اس سے پہلے اللہ کی تعریف و ستائش اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دورد پڑھنا قبولیت دعا کا موجب ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پہلے اپنے لیے دعا کی اور پھر اپنی والدہ اور تمام ان لوگوں کے لیے جو ان کے لیے دعا کریں۔ حدیث میں بھی اس بات کی صراحت ہے کہ دعا کرتے وقت اپنے آپ سے ابتدا کرنی چاہیے۔
(۲) اس سے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی والدہ سے کس قدر حسن سلوک کرتے تھے۔
(۳) نیک لوگوں کی دعائیں لینے کی کوشش کرنی چاہیے جیسا کہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ کے لیے دعا کرتے تاکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا کے مستحق ٹھہر سکیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی اعمال کرنے والوں کو دعائیں دی ہیں، ان کا مستحق بننے کی بھی کوشش کرنی چاہیے، مثلاً آپ نے فرمایا:
((رَحِمَ اللّٰهُ امْرَأءً صَلّٰی قَبْلَ الْعَصْرِ أرْبَعًا))(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: ۱۲۷۱)
اللہ اس پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔
اسی طرح جو شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو یاد کرتا ہے اور پھر انہیں آگے پہنچاتا ہے اس کے لیے بھی اللہ کی رحمت کی دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے والے پر اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اعمال ہیں جن کو اختیار کرکے انسان دعاؤں کا مستحق بن سکتا ہے۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
(۴) انسان کو ایسا کام کرنا چاہیے جس سے لوگ انسان کے والدین کے لیے بھی دعائیں کریں، یہ یقیناً باعث اجر ہے اور اس کے برعکس والدین کو گالیاں دلوانا باعث عذاب ہے۔
(۵) اگر کسی نیک آدمی سے صحبت کا موقع میسر آئے تو اس کی سیرت کی عمدہ چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے لیے سبق حاصل کرنا چاہیے، نیز اس کی نیکیوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کون سے اچھے اعمال کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اسے یہ اعزاز بخشا ہے۔
(۶) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے ولی تھے۔ تابعین ان کی دعائیں لینے کی کوشش کرتے تھے جیسا کہ محمد بن سیرین اور ان کے ساتھیوں نے سیدنا ابوہریرہ اور ان کی والدہ کے لیے دعا کرکے کیا۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں، ہمارے والدین، ابوہریرہ، ان کی والدہ اور تمام مومن مرد و خواتین کو معاف فرمائے۔ آمین
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 37