صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
57. بَابُ غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ:
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
حدیث نمبر: 4328
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: أَلَا تُنْجِزُ لِي مَا وَعَدْتَنِي، فَقَالَ لَهُ:" أَبْشِرْ"، فَقَالَ: قَدْ أَكْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ أَبْشِرْ، فَأَقْبَلَ عَلَى أَبِي مُوسَى وَبِلَالٍ كَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ، فَقَالَ: رَدَّ الْبُشْرَى، فَاقْبَلَا أَنْتُمَا، قَالَا: قَبِلْنَا، ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ، وَمَجَّ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ:" اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا، وَأَبْشِرَا"، فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَلَا، فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ: أَنْ أَفْضِلَا لِأُمِّكُمَا، فَأَفْضَلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً.
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی تھا جب آپ جعرانہ سے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ایک مقام ہے اتر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ اسی دوران میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدوی آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ پورا کیوں نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو۔ اس پر وہ بدوی بولا بشارت تو آپ مجھے بہت دے چکے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک ابوموسیٰ اور بلال کی طرف پھیرا، آپ بہت غصے میں معلوم ہو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اس نے بشارت واپس کر دی اب تم دونوں اسے قبول کر لو۔ ان دونوں حضرات نے عرض کیا کہ ہم نے قبول کیا۔ پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ طلب فرمایا اور اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو اس میں دھویا اور اسی میں کلی کی اور (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہر دو سے) فرمایا کہ اس کا پانی پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر اسے ڈال لو اور بشارت حاصل کرو۔ ان دونوں نے پیالہ لے لیا اور ہدایت کے مطابق عمل کیا۔ پردہ کے پیچھے سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بھی کہا اپنی ماں کے لیے بھی کچھ چھوڑ دینا۔ چنانچہ ان دونوں نے ان کے لیے ایک حصہ چھوڑ دیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4328  
4328. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا جب آپ جعرانه میں ٹھہرے تھے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے۔ آپ کے ساتھ حضرت بلال ؓ بھی تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا: آپ نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا کیا آپ اسے پورا نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: تیرے لیے بشارت ہے۔ وہ بولا یہ کیا بات ہے؟ آپ اکثر یہی فرماتے رہتے ہیں: خوش ہو جاؤ۔ یہ سن کر آپ ﷺ حضرت ابو موسٰی اور حضرت بلال ؓ کی طرف غضبناک حالت میں متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس دیہاتی نے تو بشارت کو مسترد کر دیا ہے، لہذا تم دونوں قبول کر لو۔ ان دونوں حضرات نے کہا: ہمیں منظور ہے۔ پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا، اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھوئے اور اس میں کلی بھی کی، پھر فرمایا: تم دونوں اس میں سے کچھ نوش کر لو اور کچھ اپنے منہ اور سینے پر ڈال لو، نیز خوش ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4328]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی باب سے مناسبت اس فقرے سے نکلتی ہے کہ آپ جعرانہ میں اترے ہوئے تھے کیونکہ جعرانہ میں آپ غزوہ طائف میں ٹھہرے تھے۔
بدوی کو آنحضرت ا نے شاید کچھ روپے پیسے یا مال غنیمت دینے کا وعدہ فرمایا ہوگا جب وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا مال کی کیا حقیقت ہے جنت تجھ کو مبارک ہو لیکن بدقسمتی سے وہ بے ادب گنوار اس بشارت پر خوش نہ ہوا۔
آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا اور ابو موسی ؓ اوربلال ؓ کو یہ نعمت سرفراز فرمائی سچ ہے تہی دستان قسمت راچہ سود ازرہبر کامل کہ خضر از آب حیوان تشنہ می آرد سکندر را۔
جعرانہ کو مکہ اور مدینہ کے درمیا ن کہنا راوی کا بھول ہے۔
جعرانہ مکہ اور طائف کے درمیان واقع ہے۔
سنہ 70 ءکے حج میں جعرانہ جانے اور اس تاریخی جگہ کو دیکھنے کا شرف مجھ کو بھی حاصل ہے۔
(راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4328   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4328  
4328. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا جب آپ جعرانه میں ٹھہرے تھے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے۔ آپ کے ساتھ حضرت بلال ؓ بھی تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا: آپ نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا کیا آپ اسے پورا نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: تیرے لیے بشارت ہے۔ وہ بولا یہ کیا بات ہے؟ آپ اکثر یہی فرماتے رہتے ہیں: خوش ہو جاؤ۔ یہ سن کر آپ ﷺ حضرت ابو موسٰی اور حضرت بلال ؓ کی طرف غضبناک حالت میں متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس دیہاتی نے تو بشارت کو مسترد کر دیا ہے، لہذا تم دونوں قبول کر لو۔ ان دونوں حضرات نے کہا: ہمیں منظور ہے۔ پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا، اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھوئے اور اس میں کلی بھی کی، پھر فرمایا: تم دونوں اس میں سے کچھ نوش کر لو اور کچھ اپنے منہ اور سینے پر ڈال لو، نیز خوش ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4328]
حدیث حاشیہ:

جعرانہ ایک منزل کا نام ہے۔
المستوفرہ سے آئیں تو حرم مکی کی حد یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
یہ جگہ بیت اللہ تقریباً 23 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہ مقام مکے اورمدینے کے درمیان نہیں جیسا کہ اس روایت میں ہےبلکہ مکے اورطائف کے درمیان ہے کیونکہ یہ طائف سے واپسی کا واقعہ ہے۔
شاید کسی راوی سے سہواً ایسا ہوا ہے کہ اسے مکے اورمدینے کے درمیان بیان کیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے اس دیہاتی سےکوئی خاص وعدہ کیا ہوگا۔
ممکن ہےکہ عام وعدہ مراد ہو، وہ یہ کہ طائف سے جعرانہ واپس آکر اموال غنیمت تقسیم کریں گے لیکن وہ شخص اپنا حصہ لینے میں جلدی سے کام لے رہا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے اعرابی!تجھے بشارت ہو،عنقریب اموال غنیمت تقسیم ہوں گے۔
یا تجھے صبر کرنے میں اللہ کے ہاں بہت ثواب ملے گا اس کے بعد اعرابی کا رد عمل روایت میں موجود ہے۔
وہ بے ادب گنوار بدقسمتی سے رسول اللہ ﷺ کی بشارت پر خوش نہ ہوا۔
آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اورحضرت ابوموسیٰ ؓ اور حضرت بلال ؓ کو یہ نعمت عطا فرمائی، کسی نے سچ کہا ہے۔
تہی دستان ِ قسمت راچہ سود از رہبر کامل۔
۔
کہ خضر از آب حیوان تشنہ مے آرد سکندر را۔

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اموال غنیمت جعرانہ میں اکھٹے کررکھے تھے۔
آپ طائف چلے گئے۔
ایک خاص حکمت کے پیش نظر ان کی تقسیم میں دیرفرمائی، اس لیے نئے نئے مسلمانوں کو جلد بازی کی وجہ سے باتیں بنانے کا موقع ملا، چنانچہ آپ ﷺ نے طائف سے واپسی کے بعد انھیں تقسیم فرمایا۔
(فتح الباري: 58/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4328