صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
57. بَابُ غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ:
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
حدیث نمبر: 4332
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَ بَيْنَ قُرَيْشٍ، فَغَضِبَتْ الْأَنْصَارُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟" قَالُوا: بَلَى، قَالَ:" لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ أَوْ شِعْبَهُمْ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش میں (حنین کی) غنیمت کی تقسیم کر دی۔ انصار رضی اللہ عنہم اس سے رنجیدہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ دنیا اپنے ساتھ لے جائیں اور تم اپنے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جاؤ۔ انصار نے عرض کیا کہ ہم اس پر خوش ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ دوسرے کسی وادی یا گھاٹی میں رہیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں رہوں گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901  
´انصار اور قریش کے فضائل کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپﷺ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپﷺ نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3901   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4332  
4332. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز مکہ فتح ہوا رسول اللہ ﷺ نے قریش میں اموالِ غنیمت تقسیم کیے تو انصار غضبناک ہو گئے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے کر جاؤ؟۔ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا: اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4332]
حدیث حاشیہ:
حضرت سلیمان بن حرب بصری مکہ کے قاضی ہیں۔
تقریباً دس ہزار احا دیث ان سے مروی ہیں۔
بغداد میں ان کی مجلس درس میں شرکاء درس کی تعداد چالیس ہزار ہوتی تھی۔
سنہ140ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ158ھ تک طلب حدیث میں سر گرداں رہے۔
انیس سال حماد بن زید نامی استاد کی خد مت میں گذارے۔
سنہ224ھ میں ان کا انتقال ہوا۔
حضرت امام بخاری ؒ کے بزرگ ترین استاذ ہیں، رحمهم اللہ أجمعین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4332   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4332  
4332. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز مکہ فتح ہوا رسول اللہ ﷺ نے قریش میں اموالِ غنیمت تقسیم کیے تو انصار غضبناک ہو گئے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے کر جاؤ؟۔ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا: اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4332]
حدیث حاشیہ:

اس غنیمت سے مراد ہوازن کے مال ہیں کیونکہ فتح مکہ میں کوئی غنیمت نہیں تھی جسے تقسیم کیا جاتا۔

واقدی نے لکھاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کو بلاکرکہا:
آؤ میں تمھیں بحرین کا علاقہ لکھ دیتا ہوں جو تمہارے لیے خاص ہوگا، اس میں اور کسی کا عمل دخل نہیں ہوگا۔
اور یہ علاقہ بھی بہترین، زرخیز اور شاداب تھا لیکن انصار نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور عرض کی:
اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں آپ ہی کافی ہیں، دنیا کے مال ومتاع کی ہمیں ضرورت نہیں۔
(فتح الباري: 64/8)
اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے بھی انصار کے جوار (پڑوس)
کوپسند فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4332