الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
45. بَابُ الْوَلَدُ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ
اولاد بخل اور بزدلی کا سبب ہے
حدیث نمبر: 85
حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ قَالَ‏:‏ كُنْتُ شَاهِدًا ابْنَ عُمَرَ إِذْ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ دَمِ الْبَعُوضَةِ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ مِمَّنْ أَنْتَ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَقَالَ‏:‏ انْظُرُوا إِلَى هَذَا، يَسْأَلُنِي عَنْ دَمِ الْبَعُوضَةِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”هُمَا رَيْحَانَيَّ مِنَ الدُّنْيَا‏.‏“
عبدالرحمٰن بن ابونعم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا۔ ایک آدمی نے سوال کیا کہ مچھر کو مارنا کیسا ہے (جائز ہے ناجائز؟) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو کہاں سے آیا ہے؟ اس نے کہا: عراق سے۔ تب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اسے دیکھو! مچھر کے مارنے کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں پوچھتا ہے، حالانکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کو شہید کیا (تو انہیں ذرا خیال نہ آیا)، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: وہ دونوں (سیدنا حسن و سیدنا حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے پھول ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم: 3753 و الترمذي: 3770 - الصحيحة: 2494»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 85  
1
فوائد ومسائل:
(۱)اہل علم کی مجلس میں بیٹھنا چاہیے۔ اس سے دینی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور اصلاح کی توفیق ملتی ہے۔ عبدالرحمن بن ابو نعم کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اس قدر عبادت گزار تھے کہ اگر ان سے کہا جاتاکہ کل تمہیں موت آجائے گی تو وہ اپنے عمل میں اضافہ نہ کرسکتے۔
(۲) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس شخص سے یہ اس لیے پوچھا:تم کہاں کے رہنے والے ہو کہ اہل کوفہ اس دور میں بھی اس طرح کے بے جا سوال کرنے میں معروف تھے۔ بعد میں بھی یہ فتنوں کی آماجگاہ رہا اور اہل الرائے وہیں کی پیداوار ہیں۔
(۳) اہل کوفہ دغا بازی میں روز اول سے معروف ہیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا باعث بنے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور پیدا ہونے والے فتنے میں پیش پیش رہے حتی کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے خانوادے کو شہید کرکے خود ہی رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ بظاہر وہ شخص اپنی دین داری اور پرہیزگاری کا رعب جمانا چاہتا تھا تاکہ لوگ کہیں کہ یہ کس قدر محتاط ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اسے سمجھ گئے اور اس کی خوب خبر لی کہ تمہیں نواسۂ رسول کو شہید کرتے ہوئے تو ذرہ حیا نہ آئی اور مچھر کے قتل کرنے کے بارے میں تم مسئلہ پوچھ رہے ہو۔
(۴) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے بہت پیار تھا، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی دوسری بیٹیوں کی نرینہ اولاد زندہ نہیں بچی تھی۔ اور وہ بیٹیاں آپ کی زندگی ہی میں دنیا سے چل بسی تھیں۔ اولاد کیونکہ باعث سکون ہوتی ہے اور انسان انہیں پیار و محبت کرکے اسی طرح سکون محسوس کرتا ہے جیسے پھول اور خوشبو انسان کو سکون مہیا کرتی ہے اس لیے اولاد کو پھول سے تشبیہ دی گئی۔
سائل نے محرم کے مچھر مار دینے کے حوالہ سے سوال کیا تھا کہ اس کا کیا حکم ہے؟ (بخاری:۳۷۵۳)
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 85