الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
50. بَابُ قُبْلَةِ الصِّبْيَانِ
بچوں کو بوسہ دینے کا بیان
حدیث نمبر: 90
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ‏:‏ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ‏:‏ أَتُقَبِّلُونَ صِبْيَانَكُمْ‏؟‏ فَمَا نُقَبِّلُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”أَوَ أَمْلِكُ لَكَ أَنْ نَزَعَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ‏؟‏۔“‏
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک بدوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: کیا تم اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس کا کیا علاج کروں کہ اللہ نے تیرے دل سے رحمت کا مادہ نکال دیا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته: 5998 و مسلم، كتاب الفضائل: 64»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 90  
1
فوائد ومسائل:
(۱)انسان جس قدر جاہل اور معرفت الٰہی سے محروم ہوگا اسی قدر سخت مزاج ہوگا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اللہ کی معرفت رکھتے تھے اس لیے آپ سب سے زیادہ رحم دل تھے۔ آپ اتنے اونچے مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود اپنے تو کیا دوسروں کے بچوں سے بھی پیار و شفقت کا رویہ رکھتے تھے۔ انہیں گزرتے ہوئے سلام کرتے۔ سفر سے واپس تشریف لاتے تو انہیں اپنے ساتھ سواری پر سوار کرلیتے۔ مزاح کرتے۔ یہ سارے کام رحمت و شفقت کی بنیاد پر ہی ممکن ہیں اور اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و احسان ہے۔
(۲) چھوٹے بچوں سے پیار کرنا اور انہیں بوسہ دینا مستحب ہے۔ ایسا کرنے سے انسان اللہ کی رحمت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ یاد رہے اس پیار کا باعث شفقت اور رحمت ہو، اگر اس کا باعث شہوت ہو تو وہ قابل مواخذہ گناہ ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 90