الادب المفرد
كِتَابُ الْجَارِ -- كتاب الجار
67. بَابُ لاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسِنُ شَاةٍ
کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا کھر ہی ہو
حدیث نمبر: 122
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُعَاذٍ الأَشْهَلِيِّ، عَنْ جَدَّتِهِ، أَنَّهَا قَالَتْ‏:‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”يَا نِسَاءَ الْمُؤْمِنَاتِ، لاَ تَحْقِرَنَّ امْرَأَةٌ مِنْكُنَّ لِجَارَتِهَا، وَلَوْ كُرَاعُ شَاةٍ مُحَرَّقٍ.“
عمرو بن معاذ اشہلی اپنی دادی (حواء بنت یزید) رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے مومن عورتو! تم میں سے کوئی عورت اپنی پڑوسن کے لیے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا جلا ہوا پایہ ہی ہو۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مالك: 931/2 و أحمد: 16611 و الدارمي: 1714 و ابن أبى عاصم فى الآحاد: 3390 و البيهقي فى شعب الإيمان: 3462 و الطبراني فى الكبير: 220/24»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 122  
1
فوائد ومسائل:
(۱)کراع سے مراد گھٹنے سے لے کر پاؤں تک کا حصہ ہے۔ اس پر گوشت بہت کم ہوتا ہے اور عموماً یہ بطور تحفہ نہیں دیا جاتا تھا کیونکہ بہت معمولی خیال کیا جاتا تھا، پھر جو لوگ اونٹوں کو ذبح کرنے والے تھے ان کے نزدیک بکری کے کُھر کی کیا حیثیت ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی کہ تحائف کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے خواہ معمولی چیز ہی ایک دوسرے کو دی جائے اور ہدیہ وصول کرنے والے کو ہدیے اور تحفے کی بجائے صاحب ہدیہ کے جذبات کو دیکھنا چاہیے۔
(۲) عورتوں کو خصوصی طور پر مخاطب اس لیے کیا کہ ایک تو اس طرح کے امور عموماً عورتوں ہی کے ذمے ہوتے ہیں، کھانے پکانے کی ذمہ داری انہی کے سپرد ہوتی ہے، ہدیہ قبول کرنا یا رد کرنا انہی کے سپرد ہوتا ہے۔ وہ بہت جلد رد عمل ظاہر کر دیتی ہیں۔ اس لیے انہیں باہمی مودت کی فضا پیدا کرنے کی ترغیب ہے اور حکم دیا ہے کہ معمولی چیز بھی ہدیہ کرنے میں عار محسوس نہ کرو اسی طرح اگر کوئی معمولی چیز تحفے کے طور پر دیتا ہے تو اسے بھی دل کی خوشی سے قبول کرو۔ نہ معلوم دینے والا کتنے جذبات کے ساتھ کتنے لوگوں کو چھوڑ کر آپ کو دے رہا ہو۔
(۳) علماء کو چاہیے کہ جو امور خصوصی طور پر عورتوں سے متعلق ہیں انہیں ان کے بارے میں وعظ و نصیحت کرتے رہیں کیونکہ اس سے مومنوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
(۴) اس حدیث میں تبادلہ تحائف کی ترغیب ہے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور معاشرے کا ماحول پرسکون ہو جاتا ہے، نیز گزران زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 122