صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
57. بَابُ غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ:
باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
حدیث نمبر: 4337
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمَ حُنَيْنٍ أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَغَطَفَانُ وَغَيْرُهُمْ بِنَعَمِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةُ آلَافٍ وَمِنَ الطُّلَقَاءِ، فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ، فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَاءَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا، الْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ"، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ"، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَاءَ، فَنَزَلَ، فَقَالَ:" أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ"، فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ، فَأَصَابَ يَوْمَئِذٍ غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَاءِ، وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: إِذَا كَانَتْ شَدِيدَةٌ، فَنَحْنُ نُدْعَى وَيُعْطَى الْغَنِيمَةَ غَيْرُنَا، فَبَلَغَهُ ذَلِكَ، فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟" فَسَكَتُوا، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ؟" قَالُوا: بَلَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ"، وَقَالَ هِشَامٌ: قُلْتُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ وَأَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ، قَالَ: وَأَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ؟.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے، ان سے ہشام بن زید بن انس بن مالک نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب حنین کا دن ہوا تو قبیلہ ہوازن اور غطفان اپنے مویشی اور بال بچوں کو ساتھ لے کر جنگ کے لیے نکلے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا۔ ان میں کچھ لوگ وہ بھی تھے، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد احسان رکھ کر چھوڑ دیا تھا، پھر ان سب نے پیٹھ پھیر لی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ پکارا دونوں پکار ایک دوسرے سے الگ الگ تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں طرف متوجہ ہو کر پکارا: اے انصاریو! انہوں نے جواب دیا ہم حاضر ہیں: یا رسول اللہ! آپ کو بشارت ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں، لڑنے کو تیار ہیں۔ پھر آپ بائیں طرف متوجہ ہوئے اور آواز دی، اے انصاریو! انہوں نے ادھر سے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں، یا رسول اللہ! بشارت ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک سفید خچر پر سوار تھے پھر آپ اتر گئے اور فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ انجام کار کافروں کو ہار ہوئی اور اس لڑائی میں بہت زیادہ غنیمت حاصل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مہاجرین میں اور قریشیوں میں تقسیم کر دیا (جنہیں فتح مکہ کے موقع پر احسان رکھ کر چھوڑ دیا تھا) انصار کو ان میں سے کچھ نہیں عطا فرمایا۔ انصار (کے بعض نوجوانوں) نے کہا کہ جب سخت وقت آتا ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور غنیمت دوسروں کو تقسیم کر دی جاتی ہے۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے انصار کو ایک خیمہ میں جمع کیا اور فرمایا اے انصاریو! کیا وہ بات صحیح ہے جو تمہارے بارے میں مجھے معلوم ہوئی ہے؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصاریو! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ لوگ دنیا اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہ کو اپنے گھر لے جاؤ۔ انصاریوں نے عرض کیا ہم اسی پر خوش ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی گھاٹی میں چلیں تو میں انصار ہی کی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا۔ اس پر ہشام نے پوچھا: اے ابوحمزہ! کیا آپ وہاں موجود تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غائب ہی کب ہوتا تھا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901  
´انصار اور قریش کے فضائل کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپﷺ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپﷺ نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3901   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4337  
4337. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: اے گروہ انصار! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے گروہ انصار! انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4337]
حدیث حاشیہ:
مسلم کی رویت میں ہے کہ آپ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا شجرہ رضوان والوں کو آواز دو۔
ان کی آ واز بلند تھی۔
انہوں نے پکارا اے شجرہ رضوان والو! تم کہاں چلے گئے ہو، ان کی پکار سنتے ہی یہ لوگ ایسے لپکے جیسے گائیں شفقت سے اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4337   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4337  
4337. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: اے گروہ انصار! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے گروہ انصار! انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4337]
حدیث حاشیہ:

صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اے عباس ؓ!اصحاب شجرہ کو آواز دو۔
" آپ بہت بلند آواز تھے۔
انھوں نے اونچی آواز سے کہا:
اصحاب ِشجرہ کہاں ہیں؟ ان کی آواز سنتے ہی بیعت کرنے والے ایسے لپکے جیسے گائیں اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے:
ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
پھر گھمسان کا رن پڑا تو رسول اللہ ﷺ نے کنکریاں مٹھی میں لے کر کافروں کے منہ پر دے ماریں اور فرمایا:
مجھے محمدﷺ کے رب کی قسم! کافرشکست کھا گئے ہیں۔
اس کے بعد کفار کو شکست سے دوچارہونا پڑا۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4612(1775)

اس غزوے میں رسول اللہ ﷺ اکیلے نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آدمی تھے۔
آپ کا ارادہ ہوا کہ دشمن پرٹوٹ پڑیں، اس لیے آپ اکیلے بڑھے مگر ابوسفیان بن حارث آپ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔
انھوں نے آپ کو آگے نہ جانے دیا، حضرت عباس ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4337