الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
106. بَابُ لا يَقُولُ‏:‏ عَبْدِي
غلام کو ”عبدی“ نہیں کہنا چاہیے
حدیث نمبر: 209
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعَلاَءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”لَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ‏:‏ عَبْدِي، أَمَتِي، كُلُّكُمْ عَبِيدُ اللهِ، وَكُلُّ نِسَائِكُمْ إِمَاءُ اللهِ، وَلْيَقُلْ‏:‏ غُلاَمِي، جَارِيَتِي، وَفَتَايَ، وَفَتَاتِي‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی (اپنے غلام کو) «عبدي» اور (لونڈی کو) «امتي» نہ کہے، کیونکہ تم سب اللہ کے بندے ہو اور تمہاری تمام عورتیں اللہ کی باندیاں ہیں۔ بلکہ اس طرح کہنا چاہیے: میرا غلام، میری لونڈی اور میرا فتا (نوجوان) اور میری فتاۃ۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب العتق، باب كراهية التطاول على الرقيق: 2552، نحوه، و مسلم: 2249 - الصحيحة: 803»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 209  
1
فوائد ومسائل:
عربی زبان میں غلام کے لیے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں جن میں سے عبد بھی ہے۔ لیکن کسی کو اپنا عبد (بندہ)کہنے میں تکبر اور بڑے پن کا احساس بہت نمایاں ہے اس لیے شریعت نے ایسے لفظ کے استعمال سے اجتناب کا حکم دیا ہے کیونکہ در حقیقت تو سب اللہ کے بندے ہیں۔ اور جہاں تک دیگر الفاظ ہیں تو وہ بسا اوقات آزاد کے لیے بھی بولے جاتے ہیں۔ فتا اور فتاۃ کا ترجمہ خادم اور خادمہ کیا جاسکتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی کو ایسے القاب سے نہیں پکارنا چاہیے جس سے تکبر اور بڑائی کا احساس ہو کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 209