الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
107. بَابُ هَلْ يَقُولُ‏:‏ سَيِّدِي‏؟‏
کیا کسی کو سیدی کہا جاسکتا ہے؟
حدیث نمبر: 210
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَحَبِيبٍ، وَهِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ‏:‏ عَبْدِي وَأَمَتِي، وَلاَ يَقُولَنَّ الْمَمْلُوكُ‏:‏ رَبِّي وَرَبَّتِي، وَلْيَقُلْ‏:‏ فَتَايَ وَفَتَاتِي، وَسَيِّدِي وَسَيِّدَتِي، كُلُّكُمْ مَمْلُوكُونَ، وَالرَّبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی قطعاً ایسا نہ کہے: میرا بندہ اور میری بندی، اور غلام ہرگز نہ کہے: ربی و ربتی، مالک کو چاہیے کہ وہ غلام اور لونڈی کو میرے نوجوان، میری جواں کہہ کر پکارے اور غلام کو چاہیے کہ وہ یا سیدی کہہ کر مالک کو آواز دے۔ تم سب کے سب اللہ تعالیٰ کے غلام ہو اور رب اللہ عزوجل ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أبوداؤد، الأدب، باب لا يقول المملوك ربي ربتي: 4975 و النسائي فى الكبرىٰ: 9999 - الصحيحة: 803 و عمل اليوم و الليلة: 243»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 210  
1
فوائد ومسائل:
رب کے معنی ہیں پالنے والا اور قائم رکھنے والا اور یہ وصف حقیقتاً صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں پایا جاتا ہے اس لیے وہی رب کہلوانے کا حق دار ہے۔ غلام کو چاہیے کہ اپنے آقا کو ان الفاظ سے نہ پکارے، البتہ سیدی، میرے آقا میرے مالک کہہ کر پکار سکتا ہے کیونکہ یہاں سیادت کا مطلب ریاست اور حکومت ہے اور مرتبہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 210