صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
62. بَابُ بَعْثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ- عَلَيْهِ السَّلاَمُ- وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى الْيَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ:
باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
حدیث نمبر: 4349
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ: ثُمَّ بَعَثَ عَلِيًّا بَعْدَ ذَلِكَ مَكَانَهُ، فَقَالَ:" مُرْ أَصْحَابَ خَالِدٍ مَنْ شَاءَ مِنْهُمْ أَنْ يُعَقِّبَ مَعَكَ فَلْيُعَقِّبْ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُقْبِلْ"، فَكُنْتُ فِيمَنْ عَقَّبَ مَعَهُ، قَالَ: فَغَنِمْتُ أَوَاقٍ ذَوَاتِ عَدَدٍ.
مجھ سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف بن اسحاق بن ابی اسحاق نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن بھیجا، بیان کیا کہ پھر اس کے بعد ان کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور آپ نے انہیں ہدایت کی کہ خالد کے ساتھیوں سے کہو کہ جو ان میں سے تمہارے ساتھ یمن میں رہنا چاہے وہ تمہارے ساتھ پھر یمن کو لوٹ جائے اور جو وہاں سے واپس آنا چاہے وہ چلا آئے۔ براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جو یمن کو لوٹ گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے غنیمت میں کئی اوقیہ چاندی کے ملے تھے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 279  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا۔ راوی نے حدیث بیان کی جس میں اس نے کہا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل یمن کے اسلام میں داخل ہونے کی روداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ارسال فرمائی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مکتوب پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کیلئے سجدہ ریز ہو گئے۔
بیہقی نے اسے روایت کیا ہے اور اس کی اصل بخاری میں موجود ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 279»
تخریج:
«أخرجه البيهقي: 2 /369، وأخرج البخاري صدر الحديث، المغازي، حديث:4349.»
تشریح:
1. آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مکتوب میں اہل یمن کے اسلام قبول کرنے کی خبر پڑھ کر سجدۂ شکر ادا کیا۔
مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ باعث خوشی اور مقام مسرت ہے اور یہ بھی ایک عظیم نعمت الٰہی ہے‘ اس لیے بطور شکرکے سجدۂ شکر بجا لانا مشروع ہے۔
2. ایک وہ وقت تھا جب مسلمانوں کی کثرت تعداد باعث مسرت اور موجب انبساط ہوا کرتی تھی اور اب یہ دور ہے کہ مسلمان بچوں کی پیدائش روکنے کی شب و روز سکیمیں اور عملی تدبیریں بروئے کار لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں‘ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومتی سطح پر زور و شور سے اس مہم کو چلایا جا رہا ہے اور کروڑہا روپیہ اسے کامیاب بنانے پر صرف کیا جا رہا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 279   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4349  
4349. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حضرت خالد بن ولید ؓ کے ہمراہ یمن کی طرف روانہ کیا۔ پھر حضرت خالد ؓ کی جگہ سیدنا علی ؓ کو تعینات فرمایا، نیز حکم دیا: خالد ؓ کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ ان میں سے جو تمہارے ساتھ یمن میں رہنا چاہے وہ تمہارے ساتھ لوٹ جائے اور جو چاہے (مدینہ) واپس چلا جائے۔ (حضرت براء ؓ کہتے ہیں کہ) میں بھی انہی لوگوں میں سے تھا جو حضرت علی ؓ کے ساتھ یمن لوٹ گئے تھے اور مجھے کئی اوقیہ چاندی مال غنیمت سے حاصل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4349]
حدیث حاشیہ:
اسماعیل کی روایت میں ہے کہ جب ہم حضرت علی ؓ کے ساتھ پھر یمن کو لوٹ گئے تو کافروں کی ایک قوم ہمدان سے مقابلہ ہوا۔
حضرت علی ؓ نے ان کو آنحضرت ا کاخط سنایا۔
وہ سب مسلمان ہوگئے۔
حضرت علی ؓ نے یہ حال آنحضرت ﷺ کو لکھا۔
آپ نے سجدئہ شکر ادا کیا اور فرمایا ہمدان سلامت رہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4349   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4349  
4349. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حضرت خالد بن ولید ؓ کے ہمراہ یمن کی طرف روانہ کیا۔ پھر حضرت خالد ؓ کی جگہ سیدنا علی ؓ کو تعینات فرمایا، نیز حکم دیا: خالد ؓ کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ ان میں سے جو تمہارے ساتھ یمن میں رہنا چاہے وہ تمہارے ساتھ لوٹ جائے اور جو چاہے (مدینہ) واپس چلا جائے۔ (حضرت براء ؓ کہتے ہیں کہ) میں بھی انہی لوگوں میں سے تھا جو حضرت علی ؓ کے ساتھ یمن لوٹ گئے تھے اور مجھے کئی اوقیہ چاندی مال غنیمت سے حاصل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4349]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ جب ہم لوٹ کر حضرت علی ؓ کے ہمراہ یمن گئے تو قوم ہمدان سے ہمارا مقابلہ ہوا۔
حضرت علی ؓ نے انھیں رسول اللہ ﷺ کا خط پڑھ کرسنایا تو وہ سب مسلمان ہوگئے۔
حضرت علی ؓ نے اس واقعے کی اطلاع جب رسول اللہ ﷺ کو دی تو آپ نے سجدہ شکرادا کیا اورفرمایا:
"ہمدان سلامت رہے۔
"(السنن الکبری للبیهقي: 369/2 و فتح الباري: 83/8)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے جب یمن بھیجنے کا ارادہ کیاتو انھوں نے عرض کی:
اللہ کے رسول ﷺ! آپ مجھے ایسی قوم کی طرف بھیج رہ ہیں جن کے افراد عمر رسیدہ ہیں جبکہ میں ابھی نوعمر ہوں، فیصلہ کرنے کی پوری صلاحیت نہیں رکھتا۔
رسول اللہ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کردعا فرمائی:
"اے اللہ! اس کی زبان کو ثابت رکھ، اس کے دل کی رہنمائی فرما۔
" نیز آپ نے فرمایا:
"جب تیرے پاس کوئی معاملہ آئے تو فریقین کے بیان سن کر پھر فیصلہ کرنا۔
"(مسند أحمد: 111/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4349