الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
133. بَابُ الْمِزَاحِ
مذاق کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 266
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ حَبِيبٍ أَبِي مُحَمَّدٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ‏:‏ كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَادَحُونَ بِالْبِطِّيخِ، فَإِذَا كَانَتِ الْحَقَائِقُ كَانُوا هُمُ الرِّجَالَ‏.‏
حضرت بکر بن عبداللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام بطور مزاح ایک دوسرے کی طرف خربوزے پھینکتے تھے لیکن جب حقائق (مثلاً غیرت و دفاع) کا معاملہ ہوتا تو وہ مردکار ہوتے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: الصحيحة: 435 - ن»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 266  
1
فوائد ومسائل:
(۱)مذکورہ اثر میں خربوزے پھینکنے سے مراد بعض علماء نے چھلکے لیے ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ضائع کرنے سے منع کیا ہے اور صحابہ کرام آپ کے حکم کی مخالفت کیسے کرسکتے تھے۔ لیکن حقیقی معنی مراد لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ وہ ایک دوسرے کی طرف پھینکتے ہوں اور پھر اسے کھا بھی لیتے ہوں جیسے ہمارے لڑکے تربوزہ وغیرہ نہر میں ٹھنڈا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی طرف پھینکتے ہیں اور پھر اسے کھاتے بھی ہیں۔
(۲) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مزاح صرف محدود وقت کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ انسان ہر وقت مسخرہ بنا رہے۔ صحابہ کرام کا مزاح ایسا نہیں تھا۔ جب کوئی سنجیدہ معاملہ ہوتا تو وہ اسے سنجیدگی سے لیتے گویا ان کا مذاق ایسا نہ ہوتا کہ عزت و وقار کا بھی انہیں لحاظ نہ رہتا بلکہ وہ اپنی عزت کا دفاع کرنے والے ہوتے۔ ہمارے ہاں مذاق کی صورت یہ ہے کہ مذاق میں ایک دوسرے کو ماں بہن کی گندی گالیاں دی جاتی ہیں اور دوسرا ہنس کر اپنی بے غیرتی کا ثبوت فراہم کر دیتا ہے۔ صحابہ کرام ایسے ہرگز نہیں تھے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 266