الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
136. بَابُ سَخَاوَةِ النَّفْسِ
دلی سخاوت کا بیان
حدیث نمبر: 278
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الاسْوَدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سَحَّامَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَصَمِّ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ‏:‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا، وَكَانَ لاَ يَأْتِيهِ أَحَدٌ إِلاَّ وَعَدَهُ، وَأَنْجَزَ لَهُ إِنْ كَانَ عِنْدَهُ، وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، وَجَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ فَأَخَذَ بِثَوْبِهِ فَقَالَ‏:‏ إِنَّمَا بَقِيَ مِنْ حَاجَتِي يَسِيرَةٌ، وَأَخَافُ أَنْسَاهَا، فَقَامَ مَعَهُ حَتَّى فَرَغَ مِنْ حَاجَتِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ فَصَلَّى‏.‏
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحیم و شفیق تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو (سائل) بھی آتا (نہ ہونے کی صورت میں) اس سے وعدہ فرما لیتے اور اگر ہوتا تو اسے ضرور دیتے۔ ایک دفعہ نماز کی اقامت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پلو پکڑ لیا اور کہا: میرا بس تھوڑا سا کام رہ گیا ہے، مجھے خدشہ ہے کہ پھر بھول نہ جاؤں اس لیے میری بات سن لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ کھڑے رہے حتی کہ اس نے اپنی بات پوری کر لی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر نماز پڑھائی۔

تخریج الحدیث: «حسن: الصحيحة: 2094 - أخرجه المصنف فى التاريخ: 211/4 و المزي فى تهذيب الكمال: 207/10 و قصة تاخير الصلاة بعد الاقامة فى الصحيح: 642 و مسلم: 376»

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 278  
1
فوائد ومسائل:
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ اہل عرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور حسن سلوک سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ آپ دنیا کے بادشاہوں کی طرح متکبر نہیں ہیں اسی لیے اس دیہاتی نے اصرار کیا۔
(۲) اس میں آپ کی سخاوت کا ذکر ہے کہ اگر آپ کے پاس ہوتا تو عطا فرما دیتے اور ایسا اور بھی کئی سخی کرتے ہیں اور اگر نہ ہوتا تو آپ وعدہ فرما لیتے کہ جب آئے گا تو تمہیں دوں گا اور ایسا بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ یہ سخاوت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔
(۳) اس سے معلوم ہوا کہ اقامۃ اور جماعت کھڑی ہونے کے درمیان کسی ضرورت کی بنا پر وقفہ ہوسکتا ہے، البتہ بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔
(۴) عالم اگر کسی اہم کام میں کسی مصلحت کی خاطر مصروف ہو تو مقتدیوں کو اس کا ادب و احترام کرتے ہوئے انتظار کرنا چاہیے۔ جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے جیسا کہ عموماً ہماری مساجد میں ہوتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نماز کے لیے اقامت ہو جانے کے بعد آپ ایک شخص سے اتنی دیر گفتگو کرتے رہے کہ آپ کے صحابہ اونگھنے لگے، پھر آپ نے نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاري، حدیث:۶۲۹۲، مسلم، حدیث:۳۶۷)
مساجد کے ذمہ داران اور نمازیوں کو اس حدیث پر غور کرنا چاہیے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلیٰ امامت پر کھڑا ہونے والے کو وہ کیا مقام دیتے ہیں۔ اور جو لوگ ایک دو منٹ امام کے لیٹ ہو جانے پر قیامت کھڑی کر دیتے ہیں انہیں بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 278