الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
149. بَابُ لَعْنِ الْكَافِرِ
کافر پر لعنت کرنے کا حکم
حدیث نمبر: 321
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ قَالَ‏:‏ عَبْدُ اللهِ بْنُ محمد قال حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ قِيلَ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، ادْعُ اللَّهَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ، قَالَ‏:‏ ”إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَلَكِنْ بُعِثْتُ رَحْمَةً‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مشرکین پر بددعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں فرمایا، بلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة: 87، 2599»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 321  
1
فوائد ومسائل:
(۱)آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں اس لیے مبعوث نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کروں کہ وہ لوگوں کو دھتکار دے اور اپنی رحمت سے دور کر دے بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔ مومنوں کے لیے تو آپ کی رحمت واضح ہے، البتہ آپ کافروں کے اس طرح رحمت ہیں کہ آپ کی وجہ سے ان سے دنیاوی عذاب ٹل گیا اور وہ دنیا میں تباہ نہیں ہوئے۔
(۲) عام کفار اور مشرکین کے لیے یہی حکم ہے کہ ان کی ہدایت کی دعا کی جائے لیکن ظالموں اور اسلام سے دشمنی رکھنے والوں اور سرکشوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بد دعا کی جاسکتی ہے جیسا کہ بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بد دعا کرنا ثابت ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 321