الادب المفرد
كِتَابُ رَحْمَةِ -- كتاب رحمة
176. بَابُ رَحْمَةِ الْبَهَائِمِ
جانوروں پر رحم کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 378
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ اشْتَدَّ بِهِ الْعَطَشُ، فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا، فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ، يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ‏:‏ لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْكَلْبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَنِي، فَنَزَلَ الْبِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّاهُ، ثُمَّ أَمْسَكَهَا بِفِيهِ، فَسَقَى الْكَلْبَ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ، فَغَفَرَ لَهُ“، قَالُوا‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، وَإِنَّ لَنَا فِي الْبَهَائِمِ أَجْرًا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کسی راستے پر چلا جا رہا تھا کہ اسے شدید پاس لگی۔ اس نے ایک کنواں پایا تو اس میں اترا اور پانی پیا۔ پھر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی کھا رہا ہے۔ آدمی نے سوچا کہ اس کتے کو بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جس طرح میں پیاس کی وجہ سے مشقت میں پڑا تھا، چنانچہ وہ کنویں میں اترا اور اپنا ایک موزہ بھر کر اسے منہ سے پکڑ کر باہر نکلا، پھر کتے کو وہ پانی پلا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے معاف کر دیا۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جانوروں کے کھلانے پلانے میں بھی ہمارے لیے ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر تر جگر والے (کے ساتھ احسان کرنے) میں اجر ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب رحمة الناس و البهائم: 6009 و مسلم: 2244 و أبوداؤد: 2550 - انظر الصحيحة: 29»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 378  
1
فوائد ومسائل:
(۱)بعض روایات میں مرد کی جگہ ایک بدکار عورت کا ذکر ہے کہ پانی پلانے والی فاحشہ خاتون تھی۔ ممکن ہے یہ دو الگ الگ واقعات ہوں۔
(۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ آپ سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپ نے انسانوں کے علاوہ جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے کا بھی حکم دیا۔ ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالنا، ان کی خوراک کا خیال رکھنا، بلاوجہ مارنے سے گریز کرنا سب آپ کی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ تاہم جن موذی جانوروں کو مارنے کا حکم ہے وہ اس سے مستثنیٰ ہیں لیکن انہیں بھی اذیت ناک طریقے سے مارنا منع ہے۔
(۳) آپ نے ایک دفعہ کتوں کو مارنے کا حکم دیا کہ تمام کتے ختم کر دیے جائیں لیکن پھر منع کر دیا اور کالے کتے کے مارنے کا حکم دیا اور وجہ یہ بتائی کہ وہ شیطان ہے۔ اس لیے شوقیہ کتے پالنا مذموم فعل ہے جس کی وجہ سے ہر روز ایک قیراط نیک عمل انسان کے اعمال سے کم ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ حدیث کتے پالنے کی دلیل ہرگز نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حصول رحمت الٰہی کے لیے انسان کتے پالنے اور ان کی خدمت شروع کر دے۔ اس شخص کی بخشش اس جذبۂ رحم کی وجہ سے ہوئی جو اس وقت اس میں پیدا ہوا۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 378