الادب المفرد
كِتَابُ السِّبَابِ -- كتاب السباب
203. بَابُ مَنْ لَمْ يُوَاجِهِ النَّاسَ بِكَلامِهِ
جس نے لوگوں سے منہ در منہ بات نہ کی
حدیث نمبر: 436
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ‏:‏ قَالَتْ عَائِشَةُ‏:‏ صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَرَخَّصَ فِيهِ، فَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ قَالَ‏:‏ ”مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ‏؟‏ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ، وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً‏.‏“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا اور لوگوں کو بھی وہ کام کرنے کی رخصت دی تو کچھ لوگوں نے اس سے پرہیز کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کے بعد فرمایا: ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسا کام کرنے سے بچتے ہیں جو میں نے کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان سے زیادہ علم رکھتا ہوں اور ان سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6101 و مسلم: 2356 و النسائي فى الكبرىٰ: 9992»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 436  
1
فوائد ومسائل:
(۱)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی آدمی کے حوالے سے کوئی بات معلوم ہوتی تو آپ اس کا نام لیے بغیر اجتماعی طور پر مسئلہ سمجھا دیتے اور فرماتے:فلاں کا کیا مسئلہ ہے یا لوگوں کو کیا ہے (کہ وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں)(سنن أبي داود، الادب، حدیث:۴۷۸۸)اس سے معلوم ہوا کہ منہ در منہ بات کرنے کے بجائے مجموعی طور پر بات کرنی چاہیے تاکہ کسی کو شرمندگی بھی نہ ہو اور وہ اپنی اصلاح بھی کرے۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متقی بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ جس کو شریعت نے کرنے کی اجازت دی ہے انسان اس کو نہ کرے۔ نیکی صرف وہ ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیکی قرار دیں۔
(۳) جس چیز کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال قرار دیا ہو اس کے کرنے سے پرہیز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر یہ چیز قابل احتراز ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اس سے احتراز کرنے والے ہوتے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 436