صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
69. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4367
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُم: أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:" أَمِّرْ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ"، قَالَ عُمَرُ:" بَلْ أَمِّرْ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ:" مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلَافِي"، قَالَ عُمَرُ:" مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ"، فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُقَدِّمُوا سورة الحجرات آية 1 حَتَّى انْقَضَتْ.
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے اور انہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ بنو تمیم کے چند سوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ آپ ہمارا کوئی امیر منتخب کر دیجئیے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قعقاع بن معبد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو امیر منتخب کر دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بلکہ آپ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر منتخب فرما دیجئیے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمہارا مقصد صرف مجھ سے اختلاف کرنا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں میری غرض مخالفت کی نہیں ہے۔ دونوں اتنا جھگڑے کی آواز بلند ہو گئی۔ اسی پر سورۃ الحجرات کی یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تقدموا‏» آخر آیت تک۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4367  
4367. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ بنو تمیم کے چند سوار نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: آپ قعقاع بن معبد بن زرارہ کو امیر مقرر کر دیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: بلکہ آپ اقرع بن حابس کو ان کا امیر بنا دیں۔ اس بات پر حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر سے کہا: تمہارا مقصد صرف مجھ سے اختلاف کرنا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: میری غرض آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے۔ دونوں اتنا جھگڑے کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل کیں: "ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو۔" آخر آیت تک [صحيح بخاري، حديث نمبر:4367]
حدیث حاشیہ:
ایک خطر ناک غلطی:
حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو بکر کے جواب میں کہا ما أردت خلافك میرا ارادہ آپ کی مخالفت کر نا نہیں ہے صرف بطور مشورہ و مصلحت یہ میں نے عرض کیا ہے۔
اس کا ترجمہ، صاحب تفہیم البخاری نے یوں کیا ہے عمر ؓ نے کہا کہ ٹھیک ہے میرا مقصدصرف تمہاری رائے سے اختلاف کر نا ہی ہے۔
یہ ایسا خطر ناک ترجمہ ہے کہ حضرات شیخین کی شان اقدس میں اس سے بڑا دھبہ لگتا ہے جبکہ حضرات شیخین میں باہمی طور پر بہت ہی خلوص تھا۔
اگر کبھی کوئی موقع باہمی اختلافات کا آبھی گیاتو وہ اس کو فورا رفع دفع کر ليا کرتے تھے۔
خاص طور پر حضرت عمر ؓ حضرت صدیق اکبر ؓ کا بہت زیا دہ احترام کر تے تھے اور حضرت صدیق اکبر کا بھی یہی حال تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4367   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4367  
4367. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ بنو تمیم کے چند سوار نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: آپ قعقاع بن معبد بن زرارہ کو امیر مقرر کر دیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: بلکہ آپ اقرع بن حابس کو ان کا امیر بنا دیں۔ اس بات پر حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر سے کہا: تمہارا مقصد صرف مجھ سے اختلاف کرنا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: میری غرض آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے۔ دونوں اتنا جھگڑے کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل کیں: "ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو۔" آخر آیت تک [صحيح بخاري، حديث نمبر:4367]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں وفد بنوتمیم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ کس غرض سے آئے تھے۔
اس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔

آخر میں انھوں نے عرض کی کہ آپ ہم میں سے کسی کو امیر بنادیں۔
رسول اللہ ﷺ ابھی خاموش تھے کہ شیخین نے اپنی آراء کا اظہار شروع کردیا۔
حضرت ابوبکر ؓ نے قعقاع کا نام اس لیے پیش کیا کہ وہ ذرا نرم مزاج تھا۔
اس کے مقابلے میں حضرت عمر ؓ نے اقرع بن حابس کا نام پیش کیا کیونکہ نظام امارت چلانے میں یہ زیادہ ماہر تھے۔
دونوں حضرات نے بہتر ارادہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ انداز پسند نہ آیا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں یہ حضرات اپنی آراء کا اظہار کریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی۔
اس کا نتیجہ یہ ہواکہ آئندہ جب عمر ؓ نبی اکرم ﷺ سے بات کرتے تو اس انداز سے جیسا کہ رازداری کی جاتی ہے۔
باربار انھیں کہا جاتا کہ تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی، دوبارہ کہو، چنانچہ اس کی وضاحت حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے ایک دوسری روایت میں کی ہے۔
(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7302)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4367