الادب المفرد
كِتَابُ الرِّفْقِ -- كتاب الرفق
217. بَابُ الرِّفْقِ
نرمی کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 470
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”إِيَّاكُمْ وَالشُّحَّ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ، وَقَطَعُوا أَرْحَامَهُمْ، وَالظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخل سے بچو کیونکہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ کر دیا، انہوں نے آپس میں خون خرابا کیا، اور اسی کی وجہ سے باہمی رشتہ داریاں توڑیں، اور ظلم قیامت والے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: الصحيحة: 858»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 470  
1
فوائد ومسائل:
بخیل آدمی نرم مزاج نہیں ہوسکتا۔ وہ سخت مزاح ہوگا بخل سخت مزاجی کا سبب بھی بنتا ہے، اسی وجہ سے باہم لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اور نوبت قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے۔ پھر انسان ایک دوسرے پر ظلم سے بھی نہیں چوکتا۔ اس لیے ہر صورت بخل سے اجتناب کرنا چاہیے اور نرم مزاجی کو فروغ دینا چاہیے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 470