صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
73. بَابُ قِصَّةُ أَهْلِ نَجْرَانَ:
باب: نجران کے نصاریٰ کا قصہ۔
حدیث نمبر: 4380
حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: جَاءَ الْعَاقِبُ، وَالسَّيِّدُ صَاحِبَا نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدَانِ أَنْ يُلَاعِنَاهُ، قَالَ: فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: لَا تَفْعَلْ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَاعَنَّا لَا نُفْلِحُ نَحْنُ، وَلَا عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا، قَالَا: إِنَّا نُعْطِيكَ مَا سَأَلْتَنَا، وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِينًا وَلَا تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِينًا، فَقَالَ:" لَأَبْعَثَنَّ مَعَكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ"، فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ"، فَلَمَّا قَامَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ".
مجھ سے عباس بن حسین نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے صلہ بن زفر نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نجران کے دو سردار عاقب اور سید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ کرنے کے لیے آئے تھے لیکن ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ایسا نہ کرو کیونکہ اللہ کی قسم! اگر یہ نبی ہوئے اور پھر بھی ہم نے ان سے مباہلہ کیا تو ہم پنپ نہیں سکتے اور نہ ہمارے بعد ہماری نسلیں رہ سکیں گی۔ پھر ان دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جو کچھ آپ مانگیں ہم جزیہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ کوئی امین بھیج دیجئیے، جو بھی آدمی ہمارے ساتھ بھیجیں وہ امین ہونا ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جو امانت دار ہو گا بلکہ پورا پورا امانت دار ہو گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے، آپ نے فرمایا کہ ابوعبیدہ بن الجراح! اٹھو۔ جب وہ کھڑے ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس امت کے امین ہیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث135  
´ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے فرمایا: میں تمہارے ساتھ ایک ایسے امانت دار آدمی کو بھیجوں گا جو انتہائی درجہ امانت دار ہے، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ اس امین شخص کی جانب گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح کو بھیجا۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 135]
اردو حاشہ:
(1)
نجران کا علاقہ مکہ اور یمن کے درمیان ہے اور یہ لوگ عیسائی مذہب کے پیروکار تھے۔ 9 ہجری میں ان کا وفد مدینہ منورہ آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض مسائل پر گفتگو کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔
انہوں نے انکار کیا تو آیاتِ مباہلہ نازل ہوئیں۔
انہوں نے آپس میں کہا:
اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی نبی ہیں تو ان سے مباہلہ کر کے ہم تباہی سے نہیں بچ سکتے، چنانچہ انہوں نے جزیہ دینے کا وعدہ کر کے صلح کر لی۔
اور عرض کیا کہ ایک دیانت دار آدمی روانہ فرمائیں، آپﷺ  نے صلح کا مال وصول کرنے کے لیے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور اسی موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
بعد میں یہ لوگ مسلمان ہو گئے۔ دیکھیے: (الرحیق المختوم، ص: 604 تا 606)

(2)
مالی ذمہ داریوں کے لیے دیانت دار آدمی کا تعین کرنا چاہیے۔
دوسری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ دیانت داری اہم ترین شرط ہے جو اس قسم کے منصب کے لیے ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 135   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4380  
4380. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سردارانِ نجران عاقب اور سید مباہلے کے ارادے سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ فرمایا: ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: مباہلہ مت کرو کیونکہ اگر وہ سچے نبی ہیں اور ہم ان سے مباہلہ کریں تو ہماری اور ہماری اولاد سب کی تباہی ہو جائے گی، چنانچہ دونوں نے آپ سے عرض کی: آپ جو ہمیں فرمائیں گے ہم وہ ادا کرتے رہیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ کسی امانت دار کو بھیج دیں۔ ازراہ کرم کسی امین ہی کو بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے ساتھ ضرور ایک ایسے امانت دار کو بھیجوں گا جو اعلٰی درجے کا امین ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے (کہ وہ کون خوش قسمت ہے؟) تو آپ نے فرمایا: ابو عبیدہ بن جراح! کھڑے ہو جاؤ۔ پھر جب وہ کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا: یہ شخص اس امت کا امین ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4380]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
وَفِي قِصَّةِ أَهْلِ نَجْرَانَ مِنَ الْفَوَائِدِ أَنَّ إِقْرَارَ الْكَافِرِ بِالنُّبُوَّةِ لَا يُدْخِلُهُ فِي الْإِسْلَامِ حَتَّى يَلْتَزِمَ أَحْكَامَ الْإِسْلَامِ وَفِيهَا جَوَازُ مُجَادَلَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ وَقَدْ تَجِبُ إِذَا تَعَيَّنَتْ مَصْلَحَتُهُ وَفِيهَا مَشْرُوعِيَّةُ مُبَاهَلَةِ الْمُخَالِفِ إِذَا أصر بعد ظُهُور الْحجَّة وَقد دَعَا بن عَبَّاسٍ إِلَى ذَلِكَ ثُمَّ الْأَوْزَاعِيُّ وَوَقَعَ ذَلِكَ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَمِمَّا عُرِفَ بِالتَّجْرِبَةِ أَنَّ مَنْ بَاهَلَ وَكَانَ مُبْطِلًا لَا تَمْضِي عَلَيْهِ سَنَةٌ مِنْ يَوْمِ الْمُبَاهَلَةِ وَوَقَعَ لِي ذَلِكَ مَعَ شَخْصٍ كَانَ يَتَعَصَّبُ لِبَعْضِ الْمَلَاحِدَةِ فَلَمْ يَقُمْ بَعْدَهَا غَيْرَ شَهْرَيْنِ وَفِيهَا مُصَالَحَةُ أَهْلِ الذِّمَّةِ عَلَى مَا يَرَاهُ الْإِمَامُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ وَيَجْرِي ذَلِكَ مَجْرَى ضَرْبِ الْجِزْيَةِ عَلَيْهِمْ فَإِنَّ كُلًّا مِنْهُمَا مَالٌ يُؤْخَذُ مِنَ الْكُفَّارِ عَلَى وَجْهِ الصَّغَارِ فِي كُلِّ عَامٍ وَفِيهَا بَعْثُ الْإِمَامِ الرَّجُلَ الْعَالِمَ الْأَمِينَ إِلَى أَهْلِ الْهُدْنَةِ فِي مَصْلَحَةِ الْإِسْلَامِ وَفِيهَا مَنْقَبَةٌ ظَاهِرَةٌ لِأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقد ذكر بن إِسْحَاقَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلِيًّا إِلَى أَهْلِ نَجْرَانَ لِيَأْتِيَهُ بِصَدَقَاتِهِمْ وَجِزْيَتِهِمْ وَهَذِهِ الْقِصَّةُ غَيْرُ قِصَّةِ أَبِي عُبَيْدَةَ لِأَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ تَوَجَّهَ مَعَهُمْ فَقَبَضَ مَالَ الصُّلْحِ وَرَجَعَ وَعَلِيٌّ أَرْسَلَهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ يَقْبِضُ مِنْهُمْ مَا اسْتُحِقَّ عَلَيْهِمْ مِنَ الْجِزْيَةِ وَيَأْخُذُ مِمَّنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ مَا وَجَبَ عَلَيْهِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَاللَّهُ أعلم (فتح الباري)
حافط ابن حجر فرماتے ہیں کہ اہل نجران کے قصے میں بہت سے فوائد ہیں۔
جن میں یہ کہ کافر اگر نبوت کا اقرار کرے تویہ اس کو اسلام میں داخل نہیں کرے گا جب تک جملہ احکام اسلام کا التزام نہ کرے اور یہ کہ اہل کتاب سے مذہبی امور میں مناظرہ کرنا جائز ہے بلکہ بعض دفعہ واجب، جب اس مین کوئی مصلحت مد نظر ہو اور یہ کہ مخالف سے مباہلہ کرنا بھی مشروع ہے جب وہ دلائل کے ظہور کے بعد بھی مباہلہ کا قصد کرے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے بھی اپنے ایک حریف کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اور امام اوزاعی کو بھی ایک جماعت علماء کے ساتھ مباہلہ کا موقع پیش آیا تھا اور یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ مباہلہ کرنے والا باطل فریق ایک سال کے اندر اندر عذاب الہی میں گرفتار ہوجاتا ہے اور میرے (علامہ ابن حجر کے)
ساتھ بھی ایک ملحد نے مباہلہ کیا وہ دو ماہ کے اندر ہی ہلاک ہوگیااور یہ کہ اس سے امام کے لیے مصلحتا اختیار ثابت ہوا، وہ ذمی لوگوں کے اوپر مال کی قسموں میں سے حسب مصلحت جزیہ لگائے اور یہ کہ امام ذمیوں کے پاس جس آدمی کو بطور تحصیلدار مقرر کرے وہ عالم امانت دارہو اور اس میں حضرت ابو عبیدہ ابن جراح ؓ کی منقبت بھی ہے اور ابن اسحاق نے ذکر کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجران والوں کے ہاں تحصیل زکوۃ اور اموال جزیہ کے لیے حضرت علی ؓ کو بھیجاتھا۔
یہ موقع دوسراہے۔
حضرت ابو عبیدہ ؓ کو ان کے ساتھ صرف صلح نامہ کے وقت طے شدہ رقم کی وصولی کے لیے بھیجا تھا، بعد میں علی ؓ کو ان سے مقررہ جزیہ سالانہ وصول کرنے اور جومسلمان ہوگئے تھے۔
ان سے اموال زکوۃ حاصل کرنے کے لیے بھیجاتھا۔
یہی نجرانی تھے جن کے لیے آنحضرت ﷺ نے مسجد نبوی کا آدھا حصہ ان کی اپنے مذہب کے مطابق عبادت کے لیے خالی فرمادیا تھا۔
رسول کریم ﷺ کی اہل مذاہب کے ساتھ یہ رواداری ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھی جاتی رہے گی، (صلی اللہ علیہ وسلم)
صدافسوس کہ آج خود اسلامی فرقوں میں یہ رواداری مفقود ہے۔
ایک سنی شیعہ مسجد میں اجنبی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے۔
ایک وہابی کو دیکھ کر ایک بریلوی کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں۔
فلبیك علی الإسلام من کان باکیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4380   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4380  
4380. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سردارانِ نجران عاقب اور سید مباہلے کے ارادے سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ فرمایا: ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: مباہلہ مت کرو کیونکہ اگر وہ سچے نبی ہیں اور ہم ان سے مباہلہ کریں تو ہماری اور ہماری اولاد سب کی تباہی ہو جائے گی، چنانچہ دونوں نے آپ سے عرض کی: آپ جو ہمیں فرمائیں گے ہم وہ ادا کرتے رہیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ کسی امانت دار کو بھیج دیں۔ ازراہ کرم کسی امین ہی کو بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے ساتھ ضرور ایک ایسے امانت دار کو بھیجوں گا جو اعلٰی درجے کا امین ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے (کہ وہ کون خوش قسمت ہے؟) تو آپ نے فرمایا: ابو عبیدہ بن جراح! کھڑے ہو جاؤ۔ پھر جب وہ کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا: یہ شخص اس امت کا امین ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4380]
حدیث حاشیہ:

سید کا نام ابہم تھا شرجیل بھی کہا جاتا تھا۔
اور عاقب کا نام عبدالمسیح تھا یہ ان کا مشیر تھا۔
وہ اسی کے مشورے سے تمام امور سر انجام دیتے تھےابو حارث بن علقمہ بہت بڑا عالم، امام، صاحب مدراس تھا اور سیدان کا نگران اور حضر و سفر کا ذمہ دار تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اگر تم میری باتوں کا انکار کرتے ہو تو میں تم سے مباہلہ کرتا ہوں۔
ان میں سے سید اور عاقب نے کہا:
ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرتے البتہ آپ ہم سے جو طلب کریں ہم دینے کے لیے حاضر ہیں اور آپ سے صلح کرتے ہیں۔
چنانچہ آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے ہزار جوڑے ماہ رجب میں اور ہزار جوڑے ماہ صفر میں ادا کریں گے اور ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ چاندی بھی دیں گےجب وہ صلح کر کے اپنے وطن روانہ ہو گئے تو تھوڑے ہی دنوں بعد سید اور عاقب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
(الطبقات الکبری لابن سعد: 357/1۔
وفتح الباري: 118/8)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4380