الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
268. بَابُ الْبَغْيِ
سرکشی کا بیان
حدیث نمبر: 592
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مِسْكِينُ بْنُ بُكَيْرٍ الْحَذَّاءُ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ‏:‏ يُبْصِرُ أَحَدُكُمُ الْقَذَاةَ فِي عَيْنِ أَخِيهِ، وَيَنْسَى الْجِذْلَ، أَوِ الْجِذْعَ، فِي عَيْنِ نَفْسِهِ‏.‏ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: الْجِذْلُ: الْخَشَبَةُ الْعَالِيَةُ الْكَبِيرَةُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فر مایا: تم میں سے ایک آدمی اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکے کو بھی دیکھ لیتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی بھول جاتا ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں کہ «جذل» کا مطلب بہت بڑی لمبی لکڑی۔

تخریج الحدیث: «صحيح موقوفًا: الصحيحة: 33 - أخرجه ابن أبى الدنيا فى الصمت: 194 و أحمد فى الزهد: 995 موقوفًا، و رواه ابن المبارك فى الزهد: 212 و ابن حبان: 5761 و البيهقي فى شعب الإيمان: 6761»

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوفًا
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 592  
1
فوائد ومسائل:
(۱)یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیحہ میں اسے مرفوعاً بھی صحیح کہا ہے۔ (الصحیحة للألباني، ح:۳۳)
(۲) امام ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضرب المثل بن گئی ہے اس شخص کے لیے جو دوسروں کی معمولی غلطیوں پر بھی نظر رکھتا ہے اور انہیں عار دلاتا ہے جبکہ خود اس میں موجود بڑے بڑے گناہ بھی اسے نظر نہیں آتے۔
(۳) انسان کو چاہیے کہ اپنا تزکیہ کرے، دوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنے احوال کی اصلاح کرے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی ادا نہ کرے۔ اصلاح کی غرض سے لوگوں کو سمجھانا اور چیز ہے اور ان کے عیبوں کی ٹوہ میں رہنا اور چیز ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج کل خیر خواہی کا جذبہ کم اور دوسرے کو زچ اور شرمندہ کرنا بنیادی مقصد بن چکا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 592