صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
73. بَابُ قِصَّةُ أَهْلِ نَجْرَانَ:
باب: نجران کے نصاریٰ کا قصہ۔
حدیث نمبر: 4381
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ أَهْلُ نَجْرَانَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ابْعَثْ لَنَا رَجُلًا أَمِينًا، فَقَالَ:" لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ"، فَاسْتَشْرَفَ لَهُ النَّاسُ، فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابواسحاق سے سنا، انہوں نے صلہ بن زفر سے اور ان سے ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اہل نجران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے ساتھ کوئی امانت دار آدمی بھیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایسا آدمی بھیجوں گا جو ہر حیثیت سے امانت دار ہو گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم منتظر تھے، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث135  
´ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے فرمایا: میں تمہارے ساتھ ایک ایسے امانت دار آدمی کو بھیجوں گا جو انتہائی درجہ امانت دار ہے، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ اس امین شخص کی جانب گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح کو بھیجا۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 135]
اردو حاشہ:
(1)
نجران کا علاقہ مکہ اور یمن کے درمیان ہے اور یہ لوگ عیسائی مذہب کے پیروکار تھے۔ 9 ہجری میں ان کا وفد مدینہ منورہ آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض مسائل پر گفتگو کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔
انہوں نے انکار کیا تو آیاتِ مباہلہ نازل ہوئیں۔
انہوں نے آپس میں کہا:
اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی نبی ہیں تو ان سے مباہلہ کر کے ہم تباہی سے نہیں بچ سکتے، چنانچہ انہوں نے جزیہ دینے کا وعدہ کر کے صلح کر لی۔
اور عرض کیا کہ ایک دیانت دار آدمی روانہ فرمائیں، آپﷺ  نے صلح کا مال وصول کرنے کے لیے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور اسی موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
بعد میں یہ لوگ مسلمان ہو گئے۔ دیکھیے: (الرحیق المختوم، ص: 604 تا 606)

(2)
مالی ذمہ داریوں کے لیے دیانت دار آدمی کا تعین کرنا چاہیے۔
دوسری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ دیانت داری اہم ترین شرط ہے جو اس قسم کے منصب کے لیے ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 135   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4381  
4381. حضرت حذیفہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ اہل نجران نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہمارے پاس کسی امین شخص کو بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے پاس ایسا امانت دار ضرور بھیجوں گا جو کامل امین ہے۔ لوگوں نے آپ کی طرف گردنیں اونچی کیں تو آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو روانہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4381]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو عبیدہ عامر بن عبد اللہ بن جراح ؓ فہری قریشی ہیں۔
عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اس امت کے امین کہلاتے ہیں۔
حضرت عثمان بن مظعون ؓ کے ساتھ اسلام لائے۔
حبشہ کی طرف دوسری مرتبہ ہجرت کی۔
تمام غزوات میں حاضر رہے۔
جنگ احد میں انہوں نے خود کی ان دوکڑیوں کو جو آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک میں گھس گئی تھیں کھینچا تھا جن کی وجہ سے آپ کے آگے کے دو دانت شہید ہوگئے تھے۔
یہ لمبے قدوالے خوبصورت چہرے والے تھے۔
طاعون عمواس میں 18ھ میں بمقام اردن انتقال ہوا اور بیسا ن میں دفن ہوئے۔
عمر اٹھاون سال کی تھی۔
ان کا نسب نامہ رسول کریم ﷺ سے فہر بن مالک پر مل جاتا ہے، رضي اللہ عنه و أرضاہ، آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4381