الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
278. بَابُ دُعَاءِ الْأَخِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ
بھائی کے لیے اس کی عدم موجودگی میں دعا کرنا
حدیث نمبر: 626
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَشِهَابٌ قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلِمُحَمَّدٍ وَحْدَنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَقَدْ حَجَبْتَهَا عَنْ نَاسٍ كَثِيرٍ.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دعا کی: اے اللہ صرف مجھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے اپنی دعا کو بہت سے لوگوں سے روک لیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 6849 و ابن حبان: 986 - الإرواء: 171 - البخاري، كتاب الأدب، باب رحمة الناس و البهائم، عن أبى هريره: 6010»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 626  
1
فوائد ومسائل:
(۱)اس دعا کی تفصیل اس طرح ہے کہ ایک دیہاتی آیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگا تو اس نے دعا کی کہ اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرمانا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تنبیہ کی اور فرمایا:تونے اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو محدود کر دیا ہے۔ (صحیح البخاري، الادب، حدیث:۶۰۱۰)
مطلب یہ تھا کہ اس کی رحمت کون سی کم ہے کہ اوروں پر کرے گا تو ہم سے کم ہو جائے گی۔ ایک صحیح روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصوں میں سے ایک حصہ دنیا میں مخلوق کو دیا ہے جس کی بنا پر بندے اور حیوانات ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، ننانوے حصے اس کے پاس ہیں تو اس کی رحمت کا کیا کمال ہوگا۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ دعا میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ اپنے ساتھ دوست احباب اور ہر مسلمان کے لیے دعائے خیر کرنی چاہیے۔ کیونکہ دوسروں کے لیے مانگی گئی ہر خیر اللہ تعالیٰ مانگنے والوں کو عطا کرتا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 626