الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
302. بَابُ مَنْ كَرِهَ الدُّعَاءَ بِالْبَلاءِ
آزمائش میں مبتلا ہونے کی دعا کرنا مکروہ ہے
حدیث نمبر: 728
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: دَخَلَ، قُلْتُ لِحُمَيْدٍ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، دَخَلَ عَلَى رَجُلٍ قَدْ جَهِدَ مِنَ الْمَرَضِ، فَكَأَنَّهُ فَرْخٌ مَنْتُوفٌ، قَالَ: ”ادْعُ اللَّهَ بِشَيْءٍ أَوْ سَلْهُ“، فَجَعَلَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ مَا أَنْتَ مُعَذِّبِي بِهِ فِي الآخِرَةِ، فَعَجِّلْهُ فِي الدُّنْيَا، قَالَ: ”سُبْحَانَ اللَّهِ، لا تَسْتَطِيعُهُ، أَوَ قَالَ: لا تَسْتَطِيعُوا، أَلا قُلْتَ: اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؟“ وَدَعَا لَهُ، فَشَفَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس گئے جو بیماری سے اتنا لاغر ہو چکا تھا جیسے بال نوچا ہوا پرنده ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ سے کوئی دعا کرو یا (صحت کا) سوال کرو۔ وہ یوں کہنے لگا: اے اللہ! جو عذاب تو نے مجھے آخرت میں دینا ہے، وہ جلد دنیا ہی میں دے دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ تم نے یہ دعا کیوں نہ کی: اے اللہ! ہمیں دنیا میں اچھائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی اچھائی دے، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ پھر اس نے دعا کی تو اللہ عزوجل نے اسے شفا دے دی۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الذكر و الدعاء: 2688»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 728  
1
فوائد ومسائل:
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اچھائی اور عافیت کا سوال کرنا چاہیے کیونکہ وہ آزمائشوں پر پورا نہیں اتر سکتا۔
(۲) اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ خیر القرون میں صحابہ آخرت کے کس قدر طلب گار تھا اور انہیں اللہ کے عذاب کا کس قدر خوف تھا صحابی کا ابتلا کی خواہش کرنا آخرت کے اجر کے حصول کی خاطر تھا۔
(۳) پورا واقعہ یوں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی رضی اللہ عنہ کی تیمار داری کے لیے تشریف لے گئے تو ان کی یہ حالت دیکھ کر آپ نے پوچھا کہ تم نے کوئی دعا تو نہیں کی تھی۔ اس نے بتایا اور پھر آپ کی موجودگی میں یہ دعا کر دی کہ باری تعالیٰ مجھے صدقے کے لیے مال نہیں دیا تو ثواب کے حصول کے لیے کسی آزمائش سے دو چار کر دے اور جو عذاب مجھے آخرت میں دینا ہے دنیا ہی میں دے دے۔ تب آپ نے فرمایا کہ اس طرح کی دعا نہ کیا کرو۔
(۴) اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت کا سوال نہیں کرنا چاہیے خواہ اجر کے حصول کے لیے ہو بلکہ حصول اجر و ثواب کے لیے اللہ سے خیر طلب کرنی چاہیے۔ البتہ اگر مصیبت آجائے تو پھر صبر کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی دعا کرنی چاہیے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 728