الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
320. بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا بَقِيَ ثُلُثُ اللَّيْلِ
ایک تہائی رات رہ جائے تو اس وقت دعا کرنا
حدیث نمبر: 753
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ الأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كُلِّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخَرُ، فَيَقُولُ‏:‏ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ‏؟‏ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ‏؟‏ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ‏؟“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات کے دو تہائی وقت گزر جانے کے بعد آسمانِ دنیا پر تشریف لاتا ہے اور اعلان فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے مجھ سے مانگنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟ اور کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اسے بخش دوں؟

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التوحيد: 7494، 1145 و مسلم: 758 و أبوداؤد: 1315 و النسائي فى الكبرىٰ: 7720 و الترمذي: 3498 و ابن ماجه: 1366»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 753  
1
فوائد ومسائل:
(۱)آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ کا نزول حقیقت پر مبنی ہے۔ اس کی تأویل کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنی شان کے مطابق نزول فرماتا ہے۔
(۲) رات کا پچھلا پہر قبولیت دعا کا ہے اس لیے اس وقت کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ اس وقت دعا ضرور قبول ہوتی ہے بشرطیکہ معصیت و نافرمانی کی دعا نہ ہو اور کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔
(۳) رات کے پچھلے پہر میں اٹھنا نیک لوگوں کی عادت ہے۔ آپ نے فرمایا:یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کی عادت ہے۔ (جامع الترمذي، الدعوات، ۳۵۴۹)
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 753