الادب المفرد
كِتَابُ الأقوال -- كتاب الأقوال
321. بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ‏:‏ فُلانٌ جَعْدٌ، أَسْوَدُ، أَوْ طَوِيلٌ، قَصِيرٌ، يُرِيدُ الصِّفَةَ وَلَا يُرِيدُ الْغِيبَةَ
اگر کوئی کہے کہ فلاں گھنگریالے بالوں والا، کالا، یا لمبا، یا پست قد ہے، اور اس کا مقصد تعارف کروانا ہو، غیبت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں
حدیث نمبر: 754
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَخِي أَبِي رُهْمٍ كُلْثُومُ بْنُ الْحُصَيْنِ الْغِفَارِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا رُهْمٍ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ بَايَعُوهُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، يَقُولُ‏:‏ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ، فنُمْتُ لَيْلَةً بِالأَخْضَرِ، فَصِرْتُ قَرِيبًا مِنْهُ، فَأُلْقِيَ عَلَيْنَا النُّعَاسُ، فَطَفِقْتُ أَسْتَيْقِظُ وَقَدْ دَنَتْ رَاحِلَتِي مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَيُفْزِعُنِي دُنُوُّهَا خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، فَطَفِقْتُ أُؤَخِّرُ رَاحِلَتِي حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي بَعْضَ اللَّيْلِ، فَزَاحَمَتْ رَاحِلَتِي رَاحِلَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرِجْلُهُ فِي الْغَرْزِ، فَأَصَبْتُ رِجْلَهُ، فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ إِلاَّ بِقَوْلِهِ‏:‏ ”حَسِّ“، فَقُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، اسْتَغْفِرْ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”سِرْ‏.“‏ فَطَفِقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُنِي عَنْ مَنْ تَخَلَّفَ مِنْ بَنِي غِفَارٍ فَأُخْبِرُهُ، فَقَالَ، وَهُوَ يَسْأَلُنِي‏:‏ ”مَا فَعَلَ النَّفْرُ الْحُمُرُ الطِّوَالُ الثِّطَاطُ‏؟“‏ قَالَ‏:‏ فَحَدَّثْتُهُ بِتَخَلُّفِهِمْ، قَالَ‏:‏ ”فَمَا فَعَلَ السُّودُ الْجِعَادُ الْقِصَارُ الَّذِينَ لَهُمْ نَعَمٌ بِشَبَكَةِ شَرَخٍ‏؟“‏ فَتَذَكَّرْتُهُمْ فِي بَنِي غِفَارٍ، فَلَمْ أَذْكُرْهُمْ حَتَّى ذَكَرْتُ أَنَّهُمْ رَهْطٌ مِنْ أَسْلَمَ، فَقُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، أُولَئِكَ مِنْ أَسْلَمَ، قَالَ‏:‏ ”فَمَا يَمْنَعُ أَحَدَ أُولَئِكَ، حِينَ يَتَخَلَّفُ، أَنْ يَحْمِلَ عَلَى بَعِيرٍ مِنْ إِبِلِهِ امْرَءًا نَشِيطًا فِي سَبِيلِ اللهِ‏؟‏ فَإِنَّ أَعَزَّ أَهْلِي عَلَيَّ أَنْ يَتَخَلَّفَ عَنِّي الْمُهَاجِرُونَ مِنْ قُرَيْشٍ وَالأَنْصَارُ، وَغِفَارٌ وَأَسْلَمُ‏.‏“
ابن شہاب زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابورہم کلثوم بن حصن غفاری رضی اللہ عنہ کے بھتیجے نے بتایا کہ اس نے سیدنا ابورہم رضی اللہ عنہ سے سنا، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی۔ وہ فرماتے تھے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں شریک تھا۔ دورانِ سفر ایک رات میں اخضر مقام پر ٹھہرا۔ پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گیا تو ہم پر اونگھ تاری ہوگئی۔ میں اپنے آپ کو بیدار کرتا رہا اور میری سواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے قریب چلتی رہی۔ مجھے یہ بات پریشان کرتی رہی کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں مبارک جو رکاب میں تھا میری سواری سے ٹکرا نہ جائے۔ میں مسلسل سواری کو پیچھے کرتا رہا یہاں تک کہ رات کے ایک حصے میں مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا تو میری سواری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے ٹکرا گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک رکاب میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم کو سواری کا کچھ حصہ لگ گیا۔ میری آنکھ اس وقت کھلی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حس فرمایا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے لیے بخشش طلب فرمایئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چلتے رہو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بنوغفار کے ان لوگوں کے بارے میں پوچھنے لگے جو اس (غزوہ تبوک) سے پیچھے رہ گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت کرتے ہوئے فرمایا: اس سرخ، لمبے اور کھودے لشکر کا کیا بنا؟ وہ کیوں نہیں آئے؟ وہ کہتے ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے پیچھے رہ جانے کے بارے میں بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کا لے، گھنگریالے بالوں والے اور چھوٹے قد والے، جن کے جانور مقام شبکہ شدخ میں ہیں، وہ کیوں نہیں آئے؟ میں نے بنوغفار میں سے یہ لوگ یاد کرنے چاہے تو اس صفت کے لوگ میں یاد نہ کر پایا۔ پھر میری سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ قبیلہ بنی اسلم میں سے ہیں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ لوگ قبیلہ اسلم سے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو اس چیز سے کس بات نے منع کیا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹ پر کسی چاک و چوبند آدمی کو اللہ کی راہ میں سوار کرا دیں؟ کیوں مجھے یہ بات بہت گراں گزرتی ہے کہ میرے تعلق داروں میں سے قریش کے مہاجرین، انصار، اور بنوغفار، اور اسلم جہاد سے پیچھے رہیں۔

تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه أحمد: 19073 و معمر فى جامعه: 49/11 و ابن أبى عاصم فى الآحاد: 991 و ابن حبان: 7257 و الطبراني فى الكبير: 183/19 و الحاكم: 685/3»

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 754  
1
فوائد ومسائل:
اس روایت کی سند ضعیف ہے، تاہم اگر کوئی لقب کسی کی پہچان بن چکا ہو تو اس سے اس کو پکارنا جائز ہے، جیسے چھوٹو، کالا وغیرہ۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 754